میں نکاح کے بارے میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ قاضی کو ہدیہ کو ن دے گا؟ دولہا کے والد یا دلہن کے والد کو دینا ہوگا؟ نیز اسی طرح مسجد کے لیے کون یدیہ دے گاجب نکاح کے لیے مسجد کا استعمال کیا جائے؟براہ کرم، جواب دیں۔

سوال کا متن:

میں نکاح کے بارے میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ قاضی کو ہدیہ کو ن دے گا؟ دولہا کے والد یا دلہن کے والد کو دینا ہوگا؟ نیز اسی طرح مسجد کے لیے کون یدیہ دے گاجب نکاح کے لیے مسجد کا استعمال کیا جائے؟براہ کرم، جواب دیں۔

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 508-473/Sn=8/1436-U
(۱) قاضی کے ”ہدیہ“ سے مراد اگر نکاح خوانی کی اجرت ہے تو یہ اجرت اس شخص پر لازم ہے جو اسے نکاح پڑھانے کے لیے بلائے گا۔
(۲) مسجد ”کرایہ“ پر دینے کے لیے نہیں ہوتی کہ اس کے استعمال پر معاوضہ اور اجرت دی جائے، نکاح کے ایجاب وقبول کی مجلس مسجد میں منعقد کرنا مسنون ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی، اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، گویا مسجد کے اغراض ومقاصد میں یہ بھی داخل ہے؛ اس لیے مسجد میں مجلسِ نکاح منعقد ہونے پر متولی یا انتظامی کمیٹی کا معاوضہ یا چندے کا مطالبہ کرنا ہی جائز نہیں ہے؛ اس لیے آپ کا سوال ہی غیر ضروری اور فضول ہے؛ ہاں اگر کوئی شخص انتظامیہ کی طرف سے جبر ومطالبہ کے بغیر اس موقع پر مسجد میں کچھ چندہ دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مسجد کی ضروریات میں اس رقم کو استعمال کرنا جائز ہے۔ في حاشیة الشلبی علی التبیین: قال الکمال: ویستحب مباشرة عقد النکاح في المسجد؛ لأنہ عبادة․․․ وفي الترمذي عن عائشة -رضي اللہ عنہا- قالت: قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- أعلنوا النکاح واجعلوہ في المسجد الحدیث (۲/۹۵، شروط النکاح وأرکانہ، ط: بولاق) عن صالح مولی التوأمة، قال رأی رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- جماعة في المسجد، فقال: ما ہذا؟ قالوا نکاح، قال: ہذا النکاح لیس بالسفاح․ (مصنف عبد الرزاق، رقم: ۱۰۴۴۸، باب النکح في المسجد)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :59176
تاریخ اجراء :May 20, 2015