مفرور لڑكی كے بارے میں یہ معلوم نہیں كہ نكاح كیا یا نہیں تو كیا كرنا چاہیے؟

سوال کا متن:

ہمارے دوست کی بیٹی کو اس کے کالج کے ساتھی نے دھوکہ سے بھگا کر لے گیا اور لالچ اور دین کا جھانسہ دے کر اس سے شادی کرلی ، اب یہ بھی صحیح پتا نہیں ہے کہ شادی ہوی کہ نہیں ، کیوں کہ نہ ہمارا دوست اس میں شریک تھا اور نہ ہی لڑکے کے گھروالے ،بعد دونوں ملے اور بولتے ہیں کہ ہم نے نکاح کرلیاہے اور گھر والے سے بول کر چلے گئے ، ہمارے دوست نے بولا ، اب دوبارہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن لڑکی کی ماں بیٹی کی محبت کی وجہ سے فون بھی کرتی ہے اور یہ بات دوست کو پتا نہیں ہے ، کیا یہ صحیح ہے؟ اور اب لڑکے کے گھر والے چاہتے ہیں کہ ہمارا دوست جائے اور پھر رشتہ داری بنے مگر یہ نہیں مانتاہے ، ابھی ایسی حالت میں کیا صحیح ہے ؟ مہربانی فرمائیں ۔ لڑکا بھی مسلمان ہے مگر ذات برادری کا نہیں ہے۔

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 645-513/D=6/1436-U
یہ سب بے پردگی اور کالج کے مخلوط ماحول کا فساد ہے، اللہ تعالیٰ سب کو فہم سلیم عطا فرمائے اور مت محمدیہ علی صاحبہا ا لصلاة والسلام کے احوال پر رحم فرماکر ان کے حالات درست فرمادے۔
صورت مسئولہ میں یہ تحقیق کی جائے کہ واقعی ان دونوں نے شرعی طور پر نکاح کرلیا ہے یا نہیں؟
(۱) الف: اگر نکاح شرعی طور پر ہوگیا ہے تو اگر بادل ناخواستہ ہی اسے قبول کرسکتے ہوں تو قبول کرلیں، بے عزتی جو ہونی تھی ہوچکی آئندہ اصلاح حال کی فکر کریں۔ب: اور اگرلڑکے میں ایسی خرابیاں ہوں جن کی بنا پر قبول نہیں کرسکتے: مثلاً آوارہ ہے شراب نوشی یا سٹہ بازی کرتا ہے تو پھر تفریح کرانے کی کوشش کریں، نکاح شرعی ہوجانے کی صورت میں تفریق کی صرف یہی صورت ہے کہ لڑکے سے طلاق لیا جائے یا خلع پر اسے تیار کیا جائے۔
(۲) اور اگر ان دونوں نے تعلق ”نکاح شرعی“ کے بغیر قائم کیا ہے یا جس طرح نکاح کرنا وہ بتلاتے ہیں وہ شرعاً غیر معتبر ہو تو اس میں بھی مذکورہ (الف) اور (ب) کی دونوں صورت ہے۔
(۳) لیکن تفریق کی صورت اختیار کرنے میں یہ اندازہ لگالینا مناسب ہوگا کہ لڑکی فرقت کو گوارہ اور برداشت بھی کرلے گی یا نہیں؟ کہیں وہ کسی اور آوارگی میں نہ پڑجائے۔
(۴) اور نکاح برقرار رکھنے یا صحیح طور پر نکاح کرانے کی صورت میں لڑکے کو دیکھ بھال کر یہ اطمینان کرلینا مناسب ہے کہ وہ صحیح طور پر حقوق زوجیت ادا کرے گا اور بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرنے میں لاپروائی نہیں کرے گا۔
نوٹ: لڑکی اور لڑکے کو گھر والے اگر نکاح میں موجود نہ ہوں مگر لڑکا لڑکی شرعی طریقہ پر دو مسلمان گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرلیں تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :58512
تاریخ اجراء :Apr 19, 2015