دو یا تین سال پہلے ہمارے شہر میں جامعہ بنوری ٹاون کراچی کے ایک فاضل نے [رمضان کے مسائل] پر ایک رسالہ لکھا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ [کان میں تیل یا دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ گیا اور کان میں پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹا]۔ کیا یہ

سوال کا متن:

دو
یا تین سال پہلے ہمارے شہر میں جامعہ بنوری ٹاون کراچی کے ایک فاضل نے [رمضان کے
مسائل] پر ایک رسالہ لکھا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ [کان میں تیل یا دوا ڈالنے سے
روزہ ٹوٹ گیا اور کان میں پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹا]۔ کیا یہ صحیح ہے؟ جب کان
میں تیل یا دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا تو پھر کان میں پانی ڈالنے سے روزہ کیوں
نہیں ٹوٹے گا؟


جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م):1682=1682-11/1430
 
ہدایہ
میں وجہ فرق یہ بیان کی ہے کہ کان میں پانی کا پہنچنا یا پہنچانا بدن کی اصلاح کے
لیے نہیں ہے، بخلاف تیل کے اور یہ بھی وجہ فرق کی ہوسکتی ہے کہ پانی سے بچنا دشوار
ہے اور اس میں ضرورت ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم: ۶/۴۱۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :17359
تاریخ اجراء :دو یا تین سال پہل