قدیم مسجد شہید کرکے دوسری جگہ تعمیر ہونے والی نئی مسجد بہ طور مبادلہ نہیں ہوسکتی؟

سوال کا متن:

کیافرماتے ہیں علمائے کرام ایک مسجد شہید کی گئی تھی، اس کے بعد نئی جگہ میں دوسری نئی مسجد بطورِ مبادلہ کے بنانا جائز ہے یانہیں؟ اگر بنائی جائے تو اس مسجد کے جو شہید کی گئی تھی تبادلہ کے طورپر ہوجائے گی یانہیں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:655-554/N=7/1439
جو جگہ ایک بار مسجد شرعی ہوجائے ، وہ تا قیامت ہمیشہ کے لیے مسجد شرعی ہوجاتی ہے، کبھی اس کی مسجدیت ختم نہیں ہوسکتی؛ اس لیے صورت مسئولہ میں قدیم مسجد شہید کرکے نئی جگہ جو دوسری مسجد بنائی گئی ہے یا بنائی جائے گی، وہ بہ طور مبادلہ نہیں ہوسکتی ؛ بلکہ قدیم مسجد کی جگہ دوبارہ مسجد بنانا اور اسے آباد کرنا ضروری ہوگا، اب وہ جگہ تا قیامت مسجد کے علاوہ کسی دوسرے کام میں استعمال نہیں کی جاسکتی۔
ولو خرب ما حولہ واستغنی عنہ یبقی مسجداً عند الإمام والثاني أبداً إلی قیام الساعة، وبہ یفتی حاوی القدسي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”ولو خرب ما حولہ“ أي: ولو مع بقائہ عامراً، وکذا لو خرب ولیس لہ ما یعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد آخر۔ قولہ: ”عند الإمام والثاني“ فلا یعود میراثاً ولا یجوز نقلہ ونقل مالہ إلی مسجد آخر سواء کانوا یصلون فیہ أو لا، وھو الفتوی، حاوی القدسي،وأکثر المشایخ علیہ، مجتبی۔ وھو الأوجہ، فتح اھ بحر (البحر الرائق، کتاب الوقف ۵:۴۲۱ط: مکتبة زکریا دیوبند) ( رد المحتار) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :159383
تاریخ اجراء :Apr 5, 2018