میت کو مسجد میں محراب کے اندر امام کے سامنے رکھ کر نماز جنازہ پڑھانا

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ میت کو مسجد کے پیچھے کی طرف سے محراب میں موجود دروازے سے محراب کے اندر لا کر امام کے سامنے جنازے کو رکھ کر فرض نماز سے فراغت کے فوراً بعد مصلیوں کے منتشر ہونے سے پہلے مسجد کے اندر ہی نماز جنازہ با جماعت ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر مذکورہ صورت سے نماز نہیں پڑھی جا سکتی ہے تو اس کی دلیل کیا ہے واضح فرمائیں۔ موجودہ زمانے میں میت کی چار پائی ایسی بن گئی ہے کہ اسٹیل کی چادر کو چاروں طرف سے چھ چھ انچ موڑ کر چھ انچ کی دیوار سی بن گئی، اس ٹب نما چادر کو اسٹیل ہی کے چار پایوں پر ویلڈ کرنے کے بعد یہ ٹب نما چادر میت کی چار پائی بن گئی ہے ۔ اب سیال شئے کے ٹپکنے کا اندیشہ بھی نہیں رہا۔ ایسی چار پائی پر میت کو رکھ کر مسجد کے صحن وغیرہ میں نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں اگر نہیں پڑھی جا سکتی ہے تو اس کی دلیل شرعی کیا ہے بیان فرمایا جائے ۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:486-456/L=5/1440
مسجد میں جنازہ کی نماز ادا کرنا مکروہ ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:من صلی جنازةً فی المسجد فلا أجر لہ وفی روایة فلا شئی لہ․(أبوداؤد:۹۸/۲کتاب الجنائز )اور آپ نے موجودہ زمانے میں اسٹیل کی چادر کی جوبات لکھی ہے اس سے کراہت مرتفع نہ ہوگی؛ کیونکہ مسجد میں نمازِ جنازہ کی کراہت کے دو سبب ہیں:
(۱) کراہت کا پہلاسبب مسجد کا بے جا استعمال :مسجد نماز ذکر وغیرہ کے لیے موضوع ہے نہ کہ نمازِ جنازہ کے لیے ،جنازہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ سے ہی الگ جگہ ہوتی آئی ہے ،بخاری شریف میں ہے: عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما: أن الیہود، جاؤا إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم برجل منہم وامرأة زنیا فأمر بہما، فرجما قریبا من موضع الجنائز عند المسجد.(صحیح البخاری:۱۷۷/۱، باب الصلاة علی الجنائز بالمصلی والمسجد) اور موطأ امام محمد میں ہے : وموضع الجنازة بالمدینة خارج من المسجد، وہو الموضع الذی کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی علی الجنازة فیہ. یعنی مدینہ منورہ میں جنازہ پڑھنے کی جگہ خارجِ مسجد ہے ،یہی وہ جگہ تھی جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ جنازہ پڑھتے تھے (موطأامام محمد:۱۳۱باب الصلاة علی الجنازة فی المسجد)
 (۲) کراہت کا دوسرا سبب مسجد کے ملوث ہونے کا خوف اور احتمال ہے ،تنزیہ مسجد واجب ہے ؛اس لیے مسجد کو ہر اس چیز سے بچانا ضروری ہے جس سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہو یاہونے کا احتمال ہو ۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے
کچا گوشت لے کر گزرنے سے بھی منع فرمایا، خِصَالٌ لَا تَنْبَغِی فِی الْمَسْجِدِ... وَلَا یُمَرُّ فِیہِ بِلَحْمٍ نَیِّءٍ(سنن ابن ماجہ:۵۵، بَابُ مَا یُکْرَہُ فِی الْمَسَاجِدِ)، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو وصیت فرمائی ہے: جنبوامساجدکم صبیانکم ومجانینکم ․یعنی اپنے بچوں اور پاگلوں کو مسجد میں نہ جانے دو ۔(ابن ماجہ:۵۵)نصاب الاحتساب میں ہے: لأنہ لا یومن منہم النجاسة وہوالمعنی الموجود فی المیت․ یعنی اس لیے کہ بچوں اور پاگلوں سے نجاست کے متعلق اطمینان نہیں کرسکتے خطرہ رہتا ہے کہ کوئی گندگی پھیلادیں گے اور یہ علت جنازہ میں بھی موجود ہے ۔واضح رہے کہ مسجد میں نجاست کا ٹپکنا ہی کراہت کا باعث نہیں ہے بلکہ مسجد میں نجاست لے جانا بھی مکروہ ہے اگر چہ نجاست نہ ٹپکے۔ چارپائی کا اسٹیل کا ہونا اس سے فرش ِ مسجد کے تلویث ہونے کا احتمال اگرچہ نہ ہو لیکن میت سے خروجِ نجاست کا احتمال باقی ہے جو مستقل موجب کراہت ہے۔ (و) کرہ تحریما (الوطء فوقہ، والبول والتغوط) لأنہ مسجد إلی عنان السماء (واتخاذہ طریقا بغیر عذر) وصرح فی القنیة بفسقہ باعتیادہ (وإدخال نجاسة فیہ) (الدر المختار :/۲ط:زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :167889
تاریخ اجراء :Jan 30, 2019