حضرت ہمارے محلہ میں کچھ سرکاری زمین تھی، اس پر اہل محلہ نے سرکار کی اجازت سے مسجد تعمیر کر لی۔ مسجد بنانے کے بعد کچھ زمین بچ گئی اور وہ زمین مسجد کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی تھی۔ تو لوگوں نے سوچا کہ اس پر کچھ دکانیں بنائی ج

سوال کا متن:

حضرت
ہمارے محلہ میں کچھ سرکاری زمین تھی، اس پر اہل محلہ نے سرکار کی اجازت سے مسجد
تعمیر کر لی۔ مسجد بنانے کے بعد کچھ زمین بچ گئی اور وہ زمین مسجد کے لیے استعمال
نہیں ہوسکتی تھی۔ تو لوگوں نے سوچا کہ اس پر کچھ دکانیں بنائی جائیں تاکہ مسجد کی
ضروریات پوری کی جاسکیں۔ لیکن دکانوں کے لیے اہل محلہ نے چندہ نہیں دیا۔ تب اس پر
کچھ لوگوں نے اپنی جیب سے آٹھ دکانیں بنادیں۔ اس مسئلہ میں یہ اتفاق ہوا کہ دکانوں
سے متعین بارہ سو روپیہ ہر مہینہ مسجد کو دئے جائیں گے تاکہ اس سے مسجد کی ضروریات
پوری ہوسکیں اور باقی کرایہ وہ لوگ لیں گے جنھوں نے دکانیں بنائی تھیں۔ اب امام
مسجد یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ زمین وقف تھی اس لیے سارا کرایہ مسجد کو جائے گا اور
وہ لوگ کرایہ نہیں لیں گے جنھوں نے دکانیں بنائی تھیں۔ جب کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ
دکانیں تو ہم نے اپنے پیسوں سے بنائی تھیں اور اس کے لیے ہم نے چندہ نہیں کیا تھا
اور ہم متعین بارہ سو روپیہ تو ہر مہینے مسجد کو دے رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر روشنی
ڈالیں۔


جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی:
1205=1205/م
 
جن
لوگوں نے اپنی ذاتی رقم سے آٹھ دکانیں بنوائیں، اگر انھوں نے صرف ثواب کی نیت سے
بطور تبرع بنوائی تھیں تو ان کو ان دکانوں کا کرایہ سے کچھ لینا درست نہیں، دکانوں
کی جملہ آمدنی برائے مسجد وقف ہوگی، اور اگر بنانے والوں کی نیت یہ تھی کہ بعد میں
ہم اس کو کرایہ وغیرہ سے وصول کرلیں گے اور ابہی بطور قرض ہم خرچ کرکے بنوادے رہے
ہیں، اور اس کی صراحت انھوں نے بنانے سے قبل ذمہ داران مسجد سے کردی تھی، اور مسجد
والوں نے اس کو منظور فرماکر بنانے کی اجازت دی تھی تو ایسی صورت میں جتنی رقم ان
حضرات نے بنوانے میں صرف کی ہے ان کو وصول کرنے کا حق ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :14570
تاریخ اجراء :حضرت ہمارے محلہ