جو قبر راستہ میں بن جائے اس کا شرعا کیا حکم ہے اور اس کو کیسے منتقل کیا جائے گا اس کا شرعی طریقہ کیا ہے حوالہ بھی لکھ دیا جائے تو مناسب ہوگا؟

سوال کا متن:

جو قبر راستہ میں بن جائے اس کا شرعا کیا حکم ہے اور اس کو کیسے منتقل کیا جائے گا اس کا شرعی طریقہ کیا ہے حوالہ بھی لکھ دیا جائے تو مناسب ہوگا؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 851-816/Sn=12/1436-U
سوال مجمل ہے، اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ ”قبر“ راستہ میں کس طرح بنی؟ حکومت نے اپنی تحویل میں لے کر راستہ بنادیا؟ یا عوام نے گزرگاہ بنالیا؟ قبر جس جگہ پر بنی ہے وہ قبرستان کے حق میں موقوفہ ہے یا کسی کی مملوک ہے؟ بہرحال فقہاء نے صراحت کی ہے کہ قبر کو روندنا اور اس پر چلنا جائز نہیں ہے، اگر قبر بہت پرانی ہوگئی پھر بھی اس کے اوپرچلنے سے ا حتیاط کرنا چاہیے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں قبر کو منتقل کرنے کے بہ جائے راستہ کو موڑدیا جائے، دفن کے بعد قبر یا لاش کو دوسری جگہ منتقل کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ درمختار میں ہے: یکرہ المشي في طریق ظن أنہ محدث حتی إذا لم یَصل إلی قبرہ إلاّ بوطء قبرٍ ترکہ (درمختار) وقال الشامي: ․․․ ویکرہ الجلوس علی القبر ووطوٴہ․․․ قلت: وتقدّم أنہ إذا بَلِي المیت وصار ترابًا یجوز زرعہ والبناء علیہ ومقتضاہ جواز المشي فوقہ ثم رأیت العیني في شرحہ علی صحیح البخاري ذَکر کلام الطحاوي المارّ ثم قال: فعلی ہذا ما ذکرہ أصحابنا في کتبہم من أن وطء القبور حرام وکذا النوم علیہا لیس کما ینبغي․․․ قلت: لکن قد قلمت أن الواقع في کلامہم التعبیر بالکراہة لا بلفظ الحرمة وحینئذ یوفق بأن م عزاہ الإمام الطحوي إلی أئمتنا الثلاثة من حمل النہي علی الجلوس لقضاء الحاجة یراد بہ في التحریم وما ذکر غیرہ من کراة الوطء والقعود إلخ یراد بہ کراہة التنزیہ في غیر قضاء الحاجة إلخ (درمختار مع الشامي، ۳/ ۱۵۵، مطلب في إہتداء ثواب القراء ة، ط: زکریا اور ”حلبی کبیری“ میں ہے: وأما بعد الدفن فلا یجوز إخراجہ إلخ (ص: ۶۰۷، ط: اشرفی) وانظر: فتاوی محمودیہ: ۹/ ۱۲۴، ط: ڈابھیل)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :61284
تاریخ اجراء :Sep 22, 2015