قربانیوں کا ایک بڑا حصہ افغانستان سے ملحقہ سرحدی ،قبائلی اور افغان علاقوں میں قربان کیا جاتا ہے ۔ان میں مسئلہ یہ ہے کہ واقفین کے ہاں ابھی (۹ذوالحجہ ہوتی ہے جب کہ قربانی کی جگہ دس ذوالحجہ ہوجاتی ہے اس میں واقف کی جگہ کا اعت

سوال کا متن:

ہم مختلف رفاہی کام کرتے ہیں جن میں سے ایک وقف قربانی ہے لوگ ہمیں اپنی قربانی کی رقم دے کر وکیل بناتے ہیں اور ہم عیدالضحی کے روز ان کی قربانی ضرورتمندوں تک پہنچاتے ہیں ان وقف قربانیوں سے متعلق دو مسائل میں آپ کی رہنمائی درکار ہے ۔
۱)قربانیوں کا ایک بڑا حصہ افغانستان سے ملحقہ سرحدی ،قبائلی اور افغان علاقوں میں قربان کیا جاتا ہے ۔ان میں مسئلہ یہ ہے کہ واقفین کے ہاں ابھی (۹ذوالحجہ ہوتی ہے جب کہ قربانی کی جگہ دس ذوالحجہ ہوجاتی ہے اس میں واقف کی جگہ کا اعتبار ہے یا قربانی کی جگہ کا،واقف کے پاس اگر نوتاریخ ہو اور قربانی کی جگہ دس تاریخ تو کیا قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
۲)ان وقف قربانیوں میں زیادہ حصہ تو نفل قربانیوں کا ہوتا ہے لیکن کچھ مقدار واجب قربانیوں کی بھی ضرور ہوتی ہے ۔گذشتہ برس قربانی کیلئے ایک جانور خریدا گیا لیکن وہ قربانی سے قبل مر گیا ۔اس صور ت میں کیا حکم ہے ؟اس قربانی کے شرکاء وواقفین کو اطلاع دی جائے ؟یہ قربانی ان کیلئے دوبارہ ضروری ہے یانہیں؟اگر قربانی کے کچھ حصص نفل اور کچھ واجب ہیں تو پھر حکم کیا ہے
اور یاہمارے پاس عطیات کی جو رقوم موجود ہوں اس میں سے قربانی کردیجائے ؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 879-844/Sn=12/1436-U
(۱) اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند سے یہی فتوی دیا جاتا ہے کہ دونوں جگہوں (یعنی قربانی کرانے والا جس جگہ ہے، اور قربانی کا جانور جس جگہ ہے) میں ایام اضحیہ ہونا ضروری ہے، اگر ایک جگہ تو ایام اضحیہ ہیں؛ لیکن دوسری جگہ نہیں تو قربانی درست نہ ہوگی؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب رقم دینے والے کے یہاں ۹/ تاریخ ہوتی ہے اور قربانی کرنے کی جگہ دسویں تو دس تاریخ کو قربانی کرنے سے قربانی ادا نہ ہوگی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: چند اہم عصری مسائل، ص: ۱۲۲)
(۲) جی ہاں! اس جانور کے شرکاء کو اطلاع دینا ضروری ہے، جن لوگوں نے واجب قربانی کی دائیگی کے لیے حصہ لیا تھا ان پر ضروری ہے کہ دوبارہ قربانی کریں، اور جن لوگوں نے نفل قربانی کے لیے حصہ لیا تھا ان کے لیے دوبارہ قربانی کرنا ضروری نہیں ہے۔
(۳) نہیں، اس سے ان کی قربانی ادا نہ ہوگی، نیز عطیہ کی رقوم ان کے مصرف ہی میں صرف کرنا ضروری ہے، ان رقوم سے آپ کے لیے دوسروں کی قربانی کی تلافی کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :61642
تاریخ اجراء :Sep 22, 2015