جس كے پاس حاجت اصلیہ سے زاید مکان یا زمین ہو وہ زكاۃ نہیں لے سكتا؟

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علماء اکرام مندرجہ ذیل صورتِ حال کے بارے میں کہ ایک ہسپتال کے ڈائیلسز یونٹ میں مریضوں کا زکوة کے پیسوں سے علاج کیا جاتا ہے ۔جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مریض ریگولر علاج زکوة سے کرنے کیلئے پہلے مریض کو In Role کیا جاتا ہے جس میں پہلے مریض سے زکوة فارم فِل کروایا جاتاہے اور زبانی طور پر بھی گھر کے حالات پو چھ لیے جاتے ہیں جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ زکوة کے مستحق ہے یا نہیں۔حتی الامکان کوشش یہی کی جاتی ہے کہ مستحق مریض کو ڈائیلسز کے لیے جگہ دی جائے اور جو مستحق نہ ہو تو اس سے معزرت کر لی جائے ۔ ڈائیلسزکا مرض مریض کے ساتھ ساتھ مستقل چلتا ہے اور کافی مہنگا علاج بھی ہے جس میں ایک مریض پرمہینے میں تقریباً 35 سے 50 ہزار روپے خرچہ آتا ہے جس میں ڈائیلسز کا خرچہ،ادویات اور ٹیسٹوں کے اخراجات شامل ہیں ۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں اچھے خاصے کاروباری کے لیے بھی ہر مہینے اتنا خرچہ برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔تو عام ملازم اور مزدور طبقے کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ تو مذکورہ صورتِ حال کے پیش نظر تملیک کروانے میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس ادارے میں تملیک کا طریقہ یہ ہے کہ ڈائیلسزکے مریض کے ہاتھ میں پیسے دیے جاتے ہیں (نوٹ:یہ پیسے جو تملیک کے لئے مریض کو دیے جاتے ہیں یہ زکوة کے پیسے نہیں ہوتے بلکہ تملیک شدہ پیسے ہوتے ہیں جو کہ بعض وجوہات کی بنا پر مریض کو اس نیت سے دیے جاتے ہیں کہ بعد میں زکوة سے اتنے پیسے منہا کر لینگے چنانچہ بعد میں زکوة سے اتنے پیسے منہا کر لیے جاتے ہیں)اور مریض وہ پیسے ادارے کے نمائندے کو دیتے ہیں اور عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ڈائیلسز کی شفٹ جو کے تقریباً چار گھنٹے کی ہوتی ہے تو اس میں مریض شفٹ شروع ہونے کے بعد سو جاتے ہیں تو جب ادارے کے نمائندے تملیک کروانے جاتے ہیں اُس وقت جو لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں اُن ہی سے سوئے ہوئے لوگوں کی پیمنٹ بھی کروا لی جاتی ہے تاکہ سوئے ہوئے لوگوں کی نیند خراب نہ ہو ۔ اِس طرح کرنے میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک مریض کو کئی مریضوں کے پیسے تملیک کے لیے دیئے جاتے ہیں تو مریض اپنے علاج کے پیسے تو دیدیتا ہے لیکن باقی پیسے اپنے پاس رکھ لیتا ہے البتہ ایسا ایک دو مرتبہ ہی ہوا ہے ۔ یا پھرمریض مزاق کرتا ہے اور باقی پیسے اپنے پاس رکھ لیتا ہے اورپھر بعد میں خود ہی واپس کر دیتا ہے۔بہر حال جو بھی صورت ہو جب مریض کو ایک سے زائدمریضوں کے پیسے تملیک کے لیے دیے جاتے ہیں تو اُس کے ذہن میں یہ ضرورو ہوتا ہے ۔کہ اگر میں نے پیسے واپس نہیں کیئے توآئیندہ یہ ادارہ میرے ڈائیلسز نہیں کرے گااور مجھے یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ رجسٹریشن کے مرحلے میں بھی بہت سی دشواریاں پیش آتیں ہیں۔ جیسا کہ بعض اوقات ایسا مریض آتا ہے کہ جو زکوة کا مستحق تو نہیں ہوتا لیکن علاج کروانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا۔ اسی طرح بہت سے مریض ایسے بھی آتے ہیں جو شہر کے مکان میں رہتے ہیں اور انکا اپنا مکان کسی گاؤں دھات میں ہوتا ہے جو یا تو بالکل بند پڑا ہوتا ہے کہ کسی کے بھی استعمال میں نہیں ہوتایا پھر بغیر کرائے کے اپنے کسی عزیزرشتے دار کو استعمال کے لیے دیا ہوا ہوتا ہے۔ اور بعض مریض ایسے آتے ہیں کہ جو شہر میں کرائے کے مکان پریا کسی عزیز کے مکان میں رہ رہے ہوتے ہیں اور دھاتوں میں ان کی زرعی زمین ہوتی ہے جو ٹھیکے پر دے رکھی ہوتی ہے۔ اور بعض مریض ایسے ہوتے ہیں کہ جو خود تو کرائے پر رہتے ہیں لیکن بچوں کے لیے پلاٹ وغیرہ لے رکھا ہوتا ہے۔ اور ان میں سے بھی بعضوں نے پلاٹ کی کچھ قسطیں دے رکھی ہوتی ہیں اور قبضہ اُن کا نہیں ہوتا ہے۔ بہت سارے مریض ایسے آتے ہیں جن کے بچے کام کرتے ہیں اور سارے پیسے لا کر گھر میں اپنے سربراہ کو دیتے ہیں جو کہ خود مریض ہوتا ہے ۔ اور بعض مریض ایسے ہوتے ہیں کہ جنکی دکان یا کوئی اور چھوٹا سا کاروبار ہوتا ہے جس کے بارے میں مریض کہتا ہے کہ میں کام نہیں کر سکتا اس لیے سب کچھ بچوں کو دے دیا ہے۔ اور بہت سے ایسے مریض بھی آتے ہیں جو سادات فیملی سے تعلق رکھتے ہیں یا غیر مسلم ہوتے ہیں۔عام طور پر کوشش یہی کی جاتی ہے کہ مسلمان مریض کو In Role کیا جائے تو سادات کو بھی ڈائیلسز کے لیے جگہ دے دی جاتی ہے۔ لیکن زکوة کے علاوہ دوسرا کوئی فنڈ نہیں ہے اس لیے تملیک (پیمنٹ)سادات سے نہیں کروا ئی جاتی بلکہ کسی دوسرے مریض سے کروا لی جاتی ہے اس کے علاوہ ایک عیسائی مریض بھی ہے جو کافی عرصہ سے یہاں ڈائیلسز کروا رہا ہے اس کی پیمنٹ بھی کسی دوسرے مریض سے کروا لی جاتی ہے ۔ یہ عسائی مریض کافی پہلے کا ہے جب کہ تملیک کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتاتھا اس لیے اس کو نکالنا مشکل ہے لہذا مذکورہ طریقے سے تملیک کروا لی جاتی ہے البتہ اب کسی غیر مسلم کو ڈائیلسز کے لیے جگہ نہیں دی جاتی ہیں ۔ ایک اور اہم صورت جو پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ مہینے میں ایک مرتبہ تمام مریضوں کے بلڈ ٹیسٹ ہوتے ہیں تو چونکہ مریض کافی ہوتے ہیں اُن کے سیمپل بھی بہت زیادہ ہو جاتے ہیں تو ٹیسٹوں کے ریٹ رات کے وقت معلوم ہوتے ہیں یعنی ڈائیلسز کی پیمنٹ کروانے کے بعد ٹیسٹوں کے پیسے معلوم ہوتے ہیں بعض اوقات کسی وجہ سے ٹیسٹوں کے پیسوں کی تملیک( پیمنٹ ) نہیں کروائی ہوتی ہے جو کہ بعد میں کسی وقت کروالی جاتی ہیں لیکن ہر ایک شعبے (لیب ، ڈائیلسز یونٹ ، اکاؤنٹس)کے کھاتے علیحدہ علیحدہ روزانہ کی بنیاد پر بن رہے ہیں اس لیے اکاؤنٹس والے ٹوٹل رقم(ڈائیلسز+ٹیسٹ )زکوة سے وصول کر کے ہسپتال کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے ہیں جو کہ روزانہ کی بنیاد پراساھیبل ہوتا رہتا ہیں۔ اور اکثر جو صورت پیش آتی ہے وہ یہ کہ جس دن ٹیسٹ ہونے ہوتے ہیں اسی دن ڈائیلسز کے ساتھ ساتھ ٹیسٹوں کی پیمنٹ بھی کروا لی جاتی ہے مثال کے طور پر 4000/= روپے ایک مریض کے حساب سے پیمنٹ کروالی جاتی ہیں لیکن جب ٹیسٹوں کے ریٹ معلوم ہوتے ہیں تورات کوپتاچلتاہے کہ کسی کے ٹیسٹ 2080/= روپے تو کسی کے 9050/= روپے جس کی ٹوٹل رقم کو تملیک شدہ رقم کے ٹوٹل پیسے کے ساتھ ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے۔ ۱۔ کیارقم کو ایک کرنا درست ہے ؟ ۲۔ مذکورہ تمام صورتوں میں کروائی گئی تملیک کا کیا حکم ہے یا تملیک کا کوئی ایسا نظام وطریقہ بتا دیجیئے کہ مریض کے ہاتھ میں پیسے دیئے بغیر زکوة کی تملیک بھی ہو جائے اورغریب اورمتوسط طبقہ اور سادات بھی متاثر نہ ہوں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1022-135T/D=10/1440
(۱) ”نوٹ“ کے تحت جو آپ نے لکھا ہے کہ غیر تملیک شدہ رقم مریض کو علاج میں خرچ کرنے کے لئے دیتے ہیں تاکہ اسی قدر رقم اپنے پاس موجود زکاة کی رقم میں سے منہا کرلیں“ اس سلسلے میں عرض ہے کہ آپ خود منہا نہ کریں بلکہ مریض کو غیر تملیک شدہ رقم بطور قرض کے دیں پھر اسے زکاة کی رقم کا مالک بناکر کہیں کہ اپنا قرض ادا کردو اور آپ اس سے اپنا قرض وصول کرلیں خواہ زبردستی کرنی پڑے تملیک کروانے کی جو صورت آپ نے آگے لکھی ہے اس میں وہ سب دقتیں پیش آسکتی ہیں جو آپ نے لکھی ہیں اور کبھی تملیک بھی معتبر طریقے پر نہیں ہو پاتی۔
(۲) زکاة کی رقم پانے کے لئے مستحق زکاة ہونا ضروری ہے حاجت اصلیہ سے زاید مکان یازمین کا ہونا خواہ دیہات میں ہو مانع اخذ زکاة ہے اور قرض دینے کی شکل میں ایسی دقت کم ہوگی۔
(۳) سادات مریض یا غیرمسلم مریض ہونے کی صورت میں مریض کے علاوہ کسی اور غریب سے کہا جائے کہ وہ آپ سے قرض لے کر علاج کراوے پھر آپ اسے زکاة کی رقم دے دیں جس سے وہ قرض ادا کردے۔
تملیک کی صورت میں عام طور پر دینا پھر لینا یہ عمل محض لایعنی مذاق اور ڈھونگ کی نوعیت ظاہر کرتا ہے اگر مریض کے علاج کا ثواب اور اس کی اہمیت ظاہر کرکے کہا جائے کہ بغیر محنت کے اس قدر ثواب حاصل کرنے کا طریقہ بتائیں اور کیا اگر تمہارے پاس رقم ہو جائے گی تو تم اس کارخیر کو کرکے ثواب حاصل کر لوگے جب اس کا یہ ذہن بن جائے یعنی مریض کا علاج کراکر تحصیل ثواب تو پھر اسے زکاة کی رقم کا مالک بنا دیا جائے تاکہ وہ حسب وعدہ اس سے تحصیل ثواب کرے۔
نوٹ: دیگر عملی نزاکتوں کے لئے مقامی علماء سے رجوع کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :171174
تاریخ اجراء :Jul 3, 2019