مسجد یا مدرسے کے مدرس کا ذاتی كام کیلے ٰ چرم قربانی کی رقم استعمال کرنا

سوال کا متن:

کیا حکم ہے اسلام میں کہ اگر کوئی مسجد یا مدرسے کا مدرس محلے کے لوگوں سے چرم قربانی جمع کرے اور بیچ کر حا صل ہونے والی رقم اپنے ذاتی استعمال میں لے آئے ؟ کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اور اگر وہ غریب ہے تو کیا دینا ٹھیک ہے اور اگر وسعت رکھتا ہے یعنی اس کے پاس گنجائٰش ہے اور وہ پھر بھی اسے اپنا حق سمجھ کر جمع کرتا ہے تو پھر کیا حکم ہے ؟ براہ کرم رہبری فرمائیں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1489-1247/B=1/1440
عام طور پر لوگ مدرسے کی خدمت کے لئے مدرس اور سفیر وغیرہ کو وکیل بناکر ان کے پاس قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہیں، انہیں ان کھالوں کا مالک نہیں بناتے؛ لہٰذا ان کو اپنا حق نہ سمجھنا چاہئے؛ تو چونکہ اسے وہ کھالیں توکیلاً ہی دی جاتی ہیں (اسے غرباء اور فقراء تک کھالیں پہنچانے کا محض وکیل بنایا جاتا ہو) جیسا کہ ماقبل میں بتایا گیا اس لئے اس کے لئے کھالوں سے حاصل ہونے والی آمدنی (رقم) اپنے مصرف میں لانا جائز نہیں؛ بلکہ فقراء اور مساکین کو اس رقم کا مالک بنانا ضروری ہے۔ (مستفاد: محمودیہ: ۱۷/۴۶۹۔ سوال نمبر: ۸۵۲۱، ط: دارالمعارف دیوبند۔ واللحم بمنزلة الجلد في الصحیح الخ مجمع الانہر: ۴/۱۷۴، کتاب الاضحیة ، ط: فقیہ الامة دیوبند۔ ویتصدق بجلدھا ․․․․․․․ فان بیع اللحم أو الجلد؛ أو بدراہم تصدق بثمنہ۔ التنویر مع الدر والرد: ۹/۴۷۵، کتاب الاضحیة، ط: زکریا دیوبند۔ فان بدل اللحم أو الجلد بہ یتصدق بہ ملتقی مع المجمع: ۴/۱۷۴، کتاب الاضحیة، ط: فقیہ الامة دیوبند۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :165007
تاریخ اجراء :Oct 13, 2018