مکتب والوں کا زکوة فطرہ وصول کرنے اور پھر کسی دوسرے مدرسہ سے زکوة کا فنڈ عطیہ سے تبدیل کرنے کا حکم

سوال کا متن:

حضرت، ہمارے گاوٴں میں ایک مکتب ہے جس کے لیے رمضان میں چندہ کیا جاتا ہے، اس چندہ میں زکات، صدقہ وغیرہ کی رقم ہوتی ہے، مدرسہ کے ذمہ دار حضرات کو کسی نے بتایا کہ اگر آپ کسی دارالعلوم میں زکات، صدقہ وغیرہ کی رقم دے کر وہاں سے اتنی ہی امداد کی رقم لے لیں تو یہ پیسہ امداد کا ہو جائے گا اور اس سے آپ امام کو مکتب کی تنخواہ دے سکتے ہیں۔
براہ کرم! شریعت کی روشنی میں جواب عنایت کیجئے کہ اس طرح پیسہ بدلنے سے زکات صدقہ کا پیسہ امداد ہو جائے گا یا نہیں؟ اور اس طرح کرکے امام کو مکتب کی تنخواہ دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ جزاک اللہ

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 424-513 /N=6/1439
جس مکتب میں زکوة ودیگر صدقات واجبہ کا مصرف نہ ہو، اس میں زکوة، فطرہ ودیگر صدقات واجبہ دینا اور مدرسہ والوں کا وصول کرنا ہی صحیح نہیں ہے؛ اس لیے آپ کے گاوٴں کے مکتب والوں کو چاہیے کہ لوگوں سے صرف عطیہ ومداد کی رقم وصول کیا کریں، زکوة، فطرہ اور دیگر صدقات واجبہ وصول نہ کیا کریں۔ اور کسی ایسے مدرسہ میں جہاں اقامتی نادار وغریب بچے پڑھتے ہیں،لوگوں نے عطیہ وامداد کی رقومات یا اشیا دی ہیں تو اس مدرسہ کے ذمہ داران، عطیہ وامداد کی مد کا فنڈ کسی دوسرے مدرسہ کے ذمہ داران زکوة، فطرہ ودیگر صدقات واجبہ کے فنڈ سے تبدیل نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ مدرسہ کا مہتمم محض وکیل وامین ہوتا ہے، وہ چندہ دہندگان کی منشا کے مطابق مدرسہ کا ہر فنڈ اسی مدرسہ میں استعمال کرنے کا پابند ہوتاہے۔
قد تقرر عند الفقہاء أن نص الواقف کنص الشارع وأن مراعاة غرض الواقفین واجبة کذا فی عامة کتب الفقہ والفتاوی، وقال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورة التوبة: ۶۰)، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ،……ولا إلی بنی ھاشم الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵-۲۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، یصرف المزکي إلی کلھم أو إلی بعضھم،……ویشترط أن یکون الصرف تملیکا، …،لا یصرف إلی بناء نحو مسجد (المصدر السابق،، ص:۲۹۱)، قولہ:”نحو مسجد“:کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج والجھاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ زیلعي (رد المحتار)، ومثلہ في مجمع الأنھر (کتاب الزکاة، ۱:۳۲۷،۳۲۸، ط:دار الکتب العلمیة، بیروت)، حیث قال:ولاتدفع الزکوة لبناء مسجد؛لأن التملیک شرط فیھا ولم یوجد، وکذا بناء القناطیر وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج وکل ما لا تملیک فیہ اھ، وھنا الوکیل إنما یستفید التصرف من الموٴکل وقد أمرہ بالدفع إلی فلان فلا یملک الدفع إلی غیرہ کما لو أوصی لزید بکذا لیس للوصي الدفع إلی غیرہ (رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۹ط مکتبة زکریا دیوبند) ، وفیھا - أي فی الیتیمة - سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ: ” ھذا زکاة مالي فادفعھا إلی فلان“ ، فدفعھا الوکیل إلی آخر ھل یضمن؟ فقال: نعم، لہ التعیین (الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الزکوة،الفصل التاسع فی المسائل المتعلقة بمعطی الزکاة، ۳: ۲۲۹ط مکتبة زکریا دیوبند)۔ 
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :157907
تاریخ اجراء :Mar 6, 2018