كن لوگوں کو میں زکات دے سکتا ہوں یعنی زکات کے مصارف كیا ہیں؟

سوال کا متن:

حضرت مفتی صاحب! میں نے بہت سے علماء سے پوچھا یہ سوال لیکن کسی نے بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا، وہ سوال میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔
(۱) سب لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس 7.5/ تولہ سونا ہو یا 52.5/ تولہ چاندی ہو یا اس کے برابر رقم ہو تو آپ پر زکات واجب ہو جاتی ہے۔ مجھے در اصل یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ چاندی اور سونا کی قیمتوں میں بہت فرق ہے مطلب 7.5/ تولہ سونا کے مقابلے میں 52.5/ تولہ چاندی کی قیمت بہت زیادہ کم ہے۔ تو مطلب میرے پاس 7.5/ تولہ سونا کے برابر نقدی ہونی چاہئے تو زکات مجھ پر واجب ہے یا 52.5/ تولہ چاندی کے برابر نقدی ہو تو زکات واجب ہے، مطلب ان دونوں میں بہت فرق ہے۔جب کہ بہت سے لوگوں کے پاس 52.5/ تولہ چاندی کے نقدی ہوں گے لیکن 7.5/ تولہ سونا کے نقدی نہیں ہوں گے تو پھر کس طرح زکات واجب ہے؟ ذرا تفصیل سے بتائیں۔
(۲) اگر زکات مجھ پر واجب ہو جائے اور ایک سال سے تقریباً ایک ماہ بعد میں زکات دوں تو پھر اگر اگلے سال میں زکات دیتا ہوں تو جب میں نے پچھلے سال دی تھی اس دن کے بعد ایک سال تک یا جس دن وہ ایک سال پورا ہوا تھا اس دن سے؟
(۳) جب میں زکات ایک سال کی دے دوں اور اس کے بعد میں اپنے ساری نقدی اپنے بڑے بھائی کو دے دوں تو پھر تو میں اس کا مالک نہیں رہا، نہ مجھ پر تو زکات نہیں ہوگی؟ یا پھر بھی میں اس کا مالک ہوں؟
(۴) جن جن کو میں زکات دے سکتا ہوں وہ بھی بتادیں یعنی زکات کے مصارف۔ میری خالہ کا شوہر مستحق ہے، کیا میں اسے زکات دے سکتا ہوں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:277-41/T=4/1439
حدیث شریف میں آیا ہے: لیس فیما دون مئتین من الورق شيء وفي مئتین خمسة یعنی دو سو درہم سے کم میں زکاة نہیں ہے، اور دو سو درہم میں پانچ درہم ہے۔ (اور دو سو درہم کا وزن 52.5 تولہ چاندی ہے) اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے، لیس علیک في الذہب زکاة ما لم یبلغ عشرین مثقالاً، یعنی بیس مثقال سے کم میں زکاة نہیں ہے (اس کا وزن 7.5 تولہ سونا ہے)؛ لہٰذا جن لوگوں کے پاس 52.5 تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو ان پر زکاة واجب ہوجائے گی، اسی طرح جن لوگوں کے پاس ان میں سے کسی ایک نصاب کے بقدر نقدی رقم ہوگی ان پر بھی زکاة واجب ہوجائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں کے پاس نقد روپیہ 52.5 تولہ چاندی کے بقدر تو ہے، مگر 7.5 تولہ سونے کے بقدر نہیں ہے، ان پر زکاة واجب ہوکی۔ أنہ یقولم ما في القیمتین من الدراہم والدنانیر حتی أنہا إذا بلغت بالتقویم بالدراہم نصابًا ولم تبلغ بالدنانیر قوّمت بما تبلغ بہ النصاب (بدائع الصنائع: ۲/۱۱۰)
(۲) پہلی مرتبہ چاند کی جس تاریخ میں آپ صاحب نصاب ہوئے تھے، جب تک آپ صاحب نصاب رہیں گے ہرسال اسی تاریخ میں زکاة واجب ہوتی رہے گی، اگر کسی سال حساب کرنے میں تاخیر بھی ہوجائے تب بھی اگلے سال صاحب نصاب ہونے کی اصل تاریخ میں ہی زکاة کا وجوب ہوگا۔
(۳) اگر آپ مالک بنانے کے قصد سے اپنے بھائی کو رقم حوالہ کرتے ہیں تو آپ کا بھائی مالک بن جائے گا، پھر اگلے سال اسی پر زکاة واجب ہوگی،آپ پر نہیں ہوگی۔
(۴) اپنے اصول یعنی ماں، باپ، دادا، دادی، اور نانی اوپر تک اور اپنے فروع یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی نیچے تک اور اپنی بیوی اسی طرح ”سید“ اور صاحب نصاب شخص، ان لوگوں کو زکاة دینا جائز نہیں ہے، اور انھیں دینے سے زکاة بھی ادا نہیں ہوتی ہے، ان کے علاوہ اپنے رشتہ داروں میں سے کسی بھی ایسے شخص کو جو نصاب کا مالک نہ ہو زکاة دی جاسکتی ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں خالہ کا شوہر اگر صاحب نصاب نہیں ہے تو وہ مستحق زکاة ہے آپ اسے زکاة دے سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :156995
تاریخ اجراء :Jan 3, 2018