سوال کا متن:
میری بھابھی بیوہ ہیں، ان کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے، اس لیے ہم پہلے ان کو زکاة کی رقم دیتے تھے ، لیکن دس مہینے پہلے ان کو ان کے والد کی جائداد سے حصے میں ۱۸ / لاکھ روپئے ملے تو انہوں نے یہ رقم اس نے پاس رکھ دی ہے تو کیا اب وہ ہم سے اور دوسروں سے زکاة کی رقم لے سکتی ہیں ؟ اور کیا ہم ان کے کھانے پینے کے لیے زکاة دے سکتے ہیں ؟
جواب کا متن:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1177-1174/N=11/1437
(۱، ۲) : آپ کی بھابھی شریعت کی نظر میں بلا شبہ صاحب نصاب ہیں ، انھیں زکوة دینا یا ان کا زکوة لینا جائز نہیں؛ بلکہ خود ان پر حسب شرائط سالانہ زکوة واجب ہے، قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورہٴ توبہ آیت: ۶۰) ، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵، ۲۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Fatwa ID: 1177-1174/N=11/1437
(۱، ۲) : آپ کی بھابھی شریعت کی نظر میں بلا شبہ صاحب نصاب ہیں ، انھیں زکوة دینا یا ان کا زکوة لینا جائز نہیں؛ بلکہ خود ان پر حسب شرائط سالانہ زکوة واجب ہے، قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورہٴ توبہ آیت: ۶۰) ، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵، ۲۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند