میں زکاة کے بارے میں سوال پوچھنا چاہتاہوں، میں ایک نوکری پیشہ انسان ہوں اور میری تنخواہ تقریباً 70,000 پاکستانی روپئے ہیں، اس کے علاوہ میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ پچھلے رمضان سے لے کر اس رمضان تک (2014-2015) کافی قرض

سوال کا متن:

میں زکاة کے بارے میں سوال پوچھنا چاہتاہوں، میں ایک نوکری پیشہ انسان ہوں اور میری تنخواہ تقریباً 70,000 پاکستانی روپئے ہیں، اس کے علاوہ میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ پچھلے رمضان سے لے کر اس رمضان تک (2014-2015) کافی قرضوں میں پھنساہوا تھا اورہر مہینہ گھر کا کرایہ ، راشن ، سبزی بل وغیرہ اور پورے مہینے کا خرچہ کرنے کے بعد میرے پاس مہینے کے آخر میں کچھ بھی نہیں بچتاتھا اور کبھی کبھی تو کسی دوست سے کچھ لینا پڑتا تھا۔ میری تنخواہ جیسے ہی آتی ہے تو میں اس میں سے 1000 1500 روپئے کسی نہ کسی مستحق غریب کو دیدیتاہوں۔ اس کے علاوہ میری بیوی کے پاس تقریبا ً1.25 تولہ (1.5 سے1.25تولہ )سونے کا ایک سیٹ پڑا ہوا ہے اوروہ ایک خاتون خانہ ہے۔ سارے گھر کا خرچ میں اٹھا تااور چلاتاہوں۔
تو اس حالت میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر زکاة فرض ہے ؟ کیا میری بیوی پر زکاة فرض ہے؟ اگر میری بیوی پر زکاة فرض ہے تو وہ کیا اسے خود ہی دینی ہوگی یا مجھ ہی کو دینی ہوگی؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 13-35/L=2/1437-U
زکاة اس وقت واجب ہوتی ہے جب کہ آدمی کے پاس حاجتِ اصلیہ اور دین سے فارغ سونے، چاندی روپے اور سامان تجارت اتنی مقدار میں ہوں کہ جن کی مجموعی مالیت یا بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی (612.360 گرام) کی مالیت کو پہنچ جائے اور اس پر سال گذرجائے اور اگر صرف سونا یا صرف چاندی ہو روپے یا سامانِ تجارت بالکل نہ ہوں تو سونا کے لیے ساڑھے سات تولہ (87.479گرام) اور چاندی کے لیے ساڑھے باون تولہ (612.360گرام) کا ہونا ضروری ہوگا، مذکورہ بالا تفصیل کے اعتبار سے اگر آپ صاحب نصاب نہیں ہیں تو آپ پر زکاة واجب نہیں، جہاں تک آپ کی بیوی کا مسئلہ ہے تو اگر آپ کی بیوی کے پاس اس سونے کے سیٹ کے علاوہ رقم بالکلیہ نہیں ہے تو آپ کی بیوی پر زکاة واجب نہیں؛ البتہ اگر اس سیٹ کے علاوہ کچھ رقم بھی ہو اور مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر ہوجائے تو آپ کی بیوی پر زکاة واجب ہوگی۔ بیوی پر خود اپنی زکاة نکالنا ضروری ہے؛ البتہ اگر آپ بیوی کی اجازت سے بیوی کی زکاة ادا کردیں تو بیوی کی زکاة ادا ہوجائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :61872
تاریخ اجراء :Nov 14, 2015