حضرت میری ایک سہیلی ہے جس کے ابو ہی واحد گھر کے کمانے والے ہیں، روزانہ منڈی سے سامان خرید کر آگے پہنچاتے ہیں جس پر گھر کا گزر الحمد للہ ہوجاتا ہے۔ ایک گاڑی بھی اپنی ہے جس پر سامان منڈی سے اٹھاکر آگے بیچتے ہیں،او رگھر بھی ا

سوال کا متن:

حضرت
میری ایک سہیلی ہے جس کے ابو ہی واحد گھر کے کمانے والے ہیں، روزانہ منڈی سے سامان
خرید کر آگے پہنچاتے ہیں جس پر گھر کا گزر الحمد للہ ہوجاتا ہے۔ ایک گاڑی بھی اپنی
ہے جس پر سامان منڈی سے اٹھاکر آگے بیچتے ہیں،او رگھر بھی اپنا ہے جہاں رہتے ہیں۔
مرد نصاب کے مالک ہیں لہذا زکوة نہیں لگتی ہے۔ لیکن ان کی بیٹی کی شادی ہے اوراس
اعتبار سے ان کو زکوة کے پیسے اس طرح سے دے سکتے ہیں کہ ان کی بیٹی جو اپنی ذات کے
اعتبار سے مال نصاب کی مالک نہیں اس کو دے دیں اس لڑکی پر تو زکوة لگ سکتی ہے؟(۲)حضرت شادی میں بہت سے
امور جہیز وغیرہ غیر ضروری ہوتے ہیں جن پر پیسہ برباد کیا جاتا ہے۔ شادی تو سگائی
سے بھی ہوسکتی ہے۔ تو پھر اس شادی کے لیے زکوة یا صدقہ دینا اندرونی طور پر دل اس
بات کو قبول نہیں کر رہاہے، اور دل یہ کہتا ہے کہ سوات سے جو لوگ بے گھر ہوکر آئے
ہیں ان کو زکوة یا صدقہ کے پیسے دے دئے جائیں۔ کیا مناسب ہے؟


جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی:
1230=1171/ب
 
اگر
سہیلی مستحق زکات ہے تو اسے زکات کی رقم دینا جائز ہے، پھر وہ رقم جب مقدارِ نصاب
تک پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزرجائے تو پھر اس سہیلی پر زکات واجب ہوجائے گی۔
( ۲) اگر جہیز وغیرہ کوئی
غریب قصدا نہیں دیتا ہے بلکہ مجبوراً دیتا ہے ورنہ اس کی لڑکی کی شادی نہیں ہوپائے
گی تو ایسے غریب کو شادی کے لیے زکات کے پیسے دینا بھی ثواب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :14328
تاریخ اجراء :حضرت میری ایک سہ®