کیا فرماتے ہیں علماکرام و مفتیان شری متین کہ ایک نابالغ بچی کا نکاح اس کے دادا نے کرکے دیا تھا اس مجلس میں باپ بھی موجود تھا جو خاموش رہا بچی بالغ ہونے کے بعد تمام گھر والے رخصتی پر بار بار اصرار کرتے رہے بعد میں بچی کے وا

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علماکرام و مفتیان شری متین کہ ایک نابالغ بچی کا نکاح اس کے دادا نے کرکے دیا تھا اس مجلس میں باپ بھی موجود تھا جو خاموش رہا بچی بالغ ہونے کے بعد تمام گھر والے رخصتی پر بار بار اصرار کرتے رہے بعد میں بچی کے والد نے عدالتی تنسیخ کروا کر دوسری جگہ نکاح کرنے کا پروگرام بنایا تو چند احباب اس کے والد کو سمجھاتے رہے کہ یہ طریقہ غیر شرعی ہے لیکن وہ نہ مانا آخرکار اس کو ایک عالم دین کے پاس لے گئے اس عالم دین نے بھی اس کو کافی سمجھایا کہ یہ طریقہ غیر شرعی ہے ایسا نہ کرو تو بچی کے باپ نے کہا کہ اب میں نے پروگرام طے کر لیا ہے برات میرے دروازے پر موجود ہے اس کو خالی واپس بھیجنے میں میری توہین ہے تو بزرگ عالم دین نے پھر اس کو سمجھایا کہ یہ شریعت کی مخالفت ہے اپنی اور اپنی بچی کی عاقبت خراب نہ کرو تو اس نے کہا کہ ایسی شریعت کو میں نہیں مانتا اسطرح کے الفاظ کہے جس سے شریعت کا صاف انکار ظاہر ہورہا تھا تو اس بزرگ عالم نے اس کو مجلس سے اٹھا دیا اور کہا کہ تو مرتد اور کافر ہوچکا ہے جب تک توبہ کرکے تجدید ایمان نہ کریگا تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگی تو اس کے بعد اس آدمی نے آکر پروگرام کے مطابق دوسری جگہ بچی کا نکاح کر دیا۔۔ دریافت طلب امور یہ ہیں: (۱) یہ تنسیخ معتبر ہے یا نہیں؟۔ (۲)اس لڑکی کے والد کا انکار شریعت کے بعد کیا حکم ہے؟۔ (۳) اس سے رشتہ ناطہ اور تعلقات باقی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ (۴)اس واقعہ کے بعد اس کے ایک داماد نے اس سے بائیکاٹ کر رکھا ہے لیکن اسکی بیوی کے تعلقات بدستور والدین کے ساتھ قائم ہیں اسکی وجہ سے شخص مذکورہ کے داماد کو بیوی کو مجورا کبھی کبھار سسرال چھوڑنے یا لینے وہاں جانا پڑتا ہے۔ اس کے لئے شرعا جواز ہے یا نہیں؟ (۵)شخص مزکورہ کیساتھ تعلقات رکھنے والوں کا کیا حکم ہے دوسرے لوگ ان سے دینی، دنیاوی تعلق رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ برائے مہربانی اسکا جواب جلد ارسال فرمائیں۔ 

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم فتوی(ب): 2148=1744-12/1431
باپ دادا کا کیا ہوا نکاح شرعاً صحیح اور پکا ہوگیا۔ وہ لڑکی دوسرے کی منکوحہ ہوگئی، اسے باپ کا تنسیخ کرانا اور شوہر سے طلاق لیے بغیر اس کا نکاح دوسرے لڑکے کے ساتھ کرنا، قطعاً ناجائز اور حرام ہے۔ وہ دوسرا نکاح صحیح نہ ہوا، لڑکی کو باپ نے حرام کاری اور زناکاری میں لگادیا۔ باپ نے بہت بڑا گناہ کمایا۔ اور جب تک لڑکی دوسرے کے یہاں رہے گی، بدکاری اور زناکاری میں مبتلا رہے گی۔ اہل محلہ کو چاہیے کہ ان دونوں کو علیحدہ کردیں اور حرام کاری سے بچائیں۔ اگر باپ ایسا نہیں کرنے دیتا ہے توایسے شخص سے قطع تعلق کرلینے کی گنجائش ہے۔ نیز باپ نے جو یہ جملہ کہا ہے کہ میں ایسی شریعت کو نہیں مانتا یہ کلمہٴ کفر ہے، لیکن یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ تمہارے کہنے سے نہیں مانتا، اس لیے کفر کا فتویٰ تو نہیں دیا جائے گا، لیکن ایسے شخص سے تعلق نہ رکھنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :27759
تاریخ اجراء :Dec 12, 2010