اگر ایک لڑکی زنا کرے کسی کے ساتھ اور پھر اس لڑکی کے حمل ٹھہر جائے اور حمل ٹھہر جانے کے دو یا پھر تین مہینہ بعد کسی اور لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح ہوجائے تو کیا یہ نکاح ہوگا یا نہیں؟ اور اگر یہ نکاح شرعی طور پر ہوگیا تو

سوال کا متن:

 اگر ایک لڑکی زنا کرے کسی
کے ساتھ اور پھر اس لڑکی کے حمل ٹھہر جائے اور حمل ٹھہر جانے کے دو یا پھر تین
مہینہ بعد کسی اور لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح ہوجائے تو کیا یہ نکاح ہوگا یا
نہیں؟ اور اگر یہ نکاح شرعی طور پر ہوگیا تو کیوں، اور اگر نہیں ہوا تو کیا وجہ
ہے؟ (۲)اگر
یہ نکاح نہیں ہوا شرعی طور سے اور لڑکی کے گھر والے لڑکی کی شادی کسی اور لڑکے کے
ساتھ کردیتے ہیں (لڑکی کے گھر والے بے خبر ہیں کہ لڑکی کے حمل ٹھہرا ہوا ہے) اور
لڑکی اپنی بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتائے بغیر (حد تک کہ اپنے ماں باپ کو بھی) نکاح
کر لیتی ہے کسی اور لڑکے کے ساتھ (مطلب جس لڑکے سے حمل ٹھہرا ہے اس لڑکے کے علاوہ
کسی اور لڑکے کے ساتھ) او رپھر اپنی زندگی اسی لڑکے کے ساتھ گزارتی ہے جس کے ساتھ
اس نے نکاح کیا ہے تو اس سلسلہ میں لڑکی کو اور اس لڑکے کو جس کے ساتھ اس کا نکاح
ہوا ( اگر چہ اس لڑکے کو پتہ چل جائے کہ میرا نکاح نہیں ہوا) اور اس لڑکے کو جس کے
ساتھ لڑکی نے زنا کیا تھا ان تینوں کو کیا کرنا چاہیے شریعت کی رو سے؟


جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ):
20=20-1/1431
 
( ۱) کسی پر بغیر ثبوتِ شرعی
کے زنا کا الزام عائد کردینا بہت بڑا گناہ اور حرام ہے، اگر بالفرض ایسا ہو بھی
گیا ہو تو پوشیدہ رکھ کر عزت وآبرو کی حفاظت کرنا لازم ہے، البتہ اصلاح کے لیے
حکمت بصیرت نرمی شفقت سے قدم اٹھانا درست ہے اگر خدانخواستہ ارتکابِ زنا ہوگیا ارو
جس لڑکے نے زنا کیا نکاح اس کے علاوہ سے ہوگیا تو حالت حمل میں بھی نکاح درست
ہوگیا، فتاویٰ الہندیہ: ۱/۲۸۰ ،
میں صراحت ہے۔
( ۲) جس لڑکے نے زنا کیا اس
کو اور لڑکی کو لازم ہے کہ ہرقسم کی گفتگو اور خلوت سے اجتناب کریں، حتی کہ موبائل
وغیرہ پر بھی کلام کی نوبت نہ آنے دیں جو کچھ ہوگیا اس پر سچے دل سے توبہ استغفار
کا اہتمام کرتے رہیں، زنا اور اسبابِ زنا سے دور بھاگیں اور جس لڑکے سے نکاح ہوا
ہے اس کو چاہیے کہ بیوی اور کے ساتھ حسن معاشرت سے گذر بسر کا اہتمام رکھے اور بچہ
کی ولادت تک جماع سے بھی احتیاط کرے بچہ کی ولادت پر بچہ کا حکم شرعی معلوم کرلے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :18530