محض طلاق كا خیال آنے سے طلاق نہیں ہوتی؟

سوال کا متن:

میرا ایک سوال ہے، جب بھی کوئی انسان منہ سے کسی دوسرے کی طلاق کا ذکر کرتاہے یا کسی اور کے ساتھ ایسی باتیں کررہا ہو اور میں بھی اگر ان باتوں میں شریک ہوجاؤں تو باتیں ختم ہونے کے بعد مجھے ایسے وسوسے ہونے لگتے ہیں کہ کہیں ان ساری باتوں کے درمیان میرے منہ سے کہیں ایسے الفاظ نہ نکل گئے ہوں جن کی وجہ سے میرے اپنے رشتے میں کوئی فرق آجائے۔ تو پوچھنا یہ تھا کہ انسان کو خود کتنا پرسینٹ یاد ہو اور یقین ہو اپنی بات کا کہ اس نے خود ایسا بولا ہے یا نہیں بولا اپنے بارے میں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 442-370/D=05/1440
محض ذہن میں طلاق کے خیالات آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، جب تک زبان سے بیوی کے لئے طلاق کے الفاظ نہ بولے جائیں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ عن اللیث: لایجوز طلاق الموسوس۔ قال: یعنی المغلوب في عقلہ (شامی: ۶/۳۵۹، ط: زکریا دیوبند) لہٰذا صورت مسئولہ میں طلاق کی باتیں کرنے سے جو آپ کو یہ وسوسہ ہوتا ہے کہ ” ہو سکتا ہے کہ میری زبان سے طلاق کے الفاظ نہ نکل گئے ہوں اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :168167
تاریخ اجراء :Jan 31, 2019