زنا کے خدشے سے دوسرا نکاح کرنا کیسا ہے ؟

سوال کا متن:

امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ میری ازدواجی زندگی میں میرے ساتھ عجیب حالات پیش آئے ہیں۔ برائے مہربانی میری شرعی راہ نمائی فرمائیں تاکہ میں اپنے بچوں کی زندگی برباد ہونے سے بچاسکوں۔ میرا نکاح اپنے وطن میں ۰۹۹۱ میں ہوا۔نکاح کے کچھ عرصہ بعد میری بیوی اور میری والدہ اور بھائی، بہنوں میں جھگڑے شروع ہوگئے ۔ اتنی زیادہ لڑائی کہ میرے گھروالوں نے مجھے بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا اور بیوی کو گھر سے نکال دیا اور مجھے دھمکی دی کہ میں اس کو گھر میں نہیں لاسکتا۔ اس بیوی سے میرے دو بچے بھی ہیں، میری بیوی طلاق نہیں چاہتی تھی، اس لیے میں نے اس کو طلاق نہیں دیا، اور علاحدہ گھر لے کر رکھا، اس کے بعد گھروالوں کے اصرار پر پہلی بیوی کے رہتے ہوئے دوسرا نکاح کرلیا۔ مگر ایک غلطی یہ ہوئی کہ اس دوسری بیوی کو پہلے نکاح کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، لیکن چند ماہ بعد اس کو ساری تفصیل بتادی جس پر وہ خفا ضرور ہوئی ، لیکن سمجھانے پر اس بات پر راضی ہوگئی کہ میں پہلی بیوی کو بھی رکھ سکتاہوں۔ میں اس وقت امریکہ میں مقیم ہوں۔ پہلی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ وطن میں ہی رہتی ہے ۔ میری دوسری بیوی میرے ساتھ یہاں آکر مقیم ہوگئی۔ الحمدللہ ، اللہ پاک نے مجھے اس بیوی سے چار بچے عطا کیے ۔ ہم لوگ ۶۱ سال تک اکٹھے اچھی زندگی گزاررہے تھے کہ کچھ عرصہ سے میری دوسری بیوی سے میں جب بھی میاں بیوی کے تعلقات قائم کرنا چاہتاتو وہ اکثر منع کرنے لگی، اور میں اپنی پہلی بیوی کو قانونی مجبوری کہ وجہ سے یہاں لابھی نہیں سکتا۔ میں ۱۴ سالہ صحت مند نوجوان ہوں۔ مجھ پر زنا کا شدید خدشہ ہے ۔ اس لیے میں نے دوسری بیوی کو بتاکر ایک ضرورت مند بے سہارا خاتون سے شرعی نکاح کرلیا۔ چند دن تک دوسری بیوی صحیح رہی، لیکن اس کے چند ماہ بعد سخت جھگڑا شروع کردیا۔ اس کے بعد اس دوسری بیوی نے اچانک مجھے بتائے بغیر ہمارے محلہ کی ایک بے پردہ مطلقہ ناسمجھ خاتون کے گھر رہائش اختیار کرلیا اور اس مطلقہ خاتون کے غلط مشوروں پرعمل کرنا شروع کردیا، یہاں تک کہ مجھ پر اپنے بچوں کے اِغوا اور اس کے ساتھ زبردستی ہم بستر ہونے (جو کہ یہاں کے قانون میں Rapeاور سنگین جرم ہے ) کا الزام لگادیا۔ جب بچوں نے خود آکر عدالت میں سچ بتایاتو الحمدللہ عدالت نے دونوں الزامات سے مجھے باعزت بری کردیا۔ اسی مطلقہ خاتون کے یہاں رہتے ہوئے میری بیوی سے ایک بہت ہی بدترین گناہ سرزدہوا، مجھے لکھتے ہوئے بھی بہت زیادہ دکھ ہورہاہے ۔ اس نے گھناؤنے گناہ کا اقرار بھی کرلیا۔ اب میری یہ بیوی میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، جب واپس گھر لانے کی کوشش کی تو میرے خلاف اپنی جان کی حفاظت والا قانون Order of protection استعمال کرکے مجھ سے ملنے سے اور واپس آنے سے مطلقاً انکار کردیا۔ اب اپنے نکاح کو ختم کرنے کے لیے مقامی امام کونسل سے رجوع کیا۔ اس کونسل کے ایک ذمہ دار امام سے میری ملاقات ہوئی تو پتاچلاکہ وہ ۰۳ تا ۲۳ امام ہیں جو دونوں میاں بیوی کی بات ایسی مجلس میں جس میں سارے ۲۳ اِمام موجود ہوں سنتے ہیں، مجھے یہ کونسل کا طریقہ غیر مناسب لگا، میں نے یہ درخواست کی کہ میں اس معاشرہ کا ایک باعزت شخص ہوں۔ اگر سارے ۲۳ امام میری ازدواجی زندگی کے بارے میں اکھٹے ایک محفل میں سنیں گے تو میری اور میری بیوی کی ذاتی زندگی سب کے سامنے ہوگی اور ا س کونسل میں سے بعض مجھ کو ناپسند کرنے والے بھی ہیں، جیسا کہ ان کے ناموں سے اندازہ ہوا۔ اس لیے میں نے ان سے درخواست کی کہ اتنے سارے افراد اس محفل میں ہونے کے بجائے چند تین یا چار اہم ذمہ دار امام ہم دونوں میاں بیوی کی بات سن کر شرعی نقطہ نظر سے راہ نمائی کریں میں اس کو قبول کروں گا۔ لیکن وہ کونسل کے ذمہ دار اس پر راضی نہ ہوئے ، بلکہ یہ بتایاکہ ہم سب ۲۳ کونسل اماموں کی متفقہ رائے سے ہی فیصلہ کرتے ہیں۔پہلی نوٹس پر آپ نہیں آئیں گے تو ۰۹ دن کے بعد دوسری نوٹس ، اس پر بھی نہیں آئیں گے تو ۰۳ دن بعد آخری نوٹس دیں گے ، اس پر بھی نہیں آئیں گے تو ہم آپ کا نکاح فسخ کردیں گے ۔ اب میرے سوالات یہ ہیں:
(۱) میرا زنا کے خدشے سے دوسرا نکاح کرنا کیسا ہے ؟
(۲) میری بیوی کو اس مطلقہ بے پردہ خاتون کا سمجھانا کہ اس زمانے میں دوسری شادی زنا سے زیادہ بدترین عمل ہے اورمجھے عورتوں کا رَسیا جیسے غلط القاب سے پکارنا کیسا ہے ؟
(۳) زنا جیسے بدترین گناہ کے سرزد ہونے کے بعد بھی کیا میں اپنی بیوی کو اپنے ساتھ نکاح میں رکھ سکتاہوں، کیا اس سے میں گنہ گارہوں گا؟
(۴) میری بیوی میرے دوسرے نکاح کو وجہ بتاکر خود گھر چھوڑ کر چلی گئی ، میں نے اس کو گھر سے نہیں نکالا، کیا شرعاً اس بنیاد پر اس کو علاحدگی کے مطالبے کا حق ہوگا؟
(۵) موجودہ حالات میں اگر میں اپنے بچوں اور دوسری بیوی دونوں کی بہتری کے لیے اس کو معاف کرکے ساتھ رہنا چاہوں تو تب بھی امام کونسل کو میرا نکاح فسخ کرنے کا شرع اختیار ہوگا؟
(۶) اگر میں امام کونسل کی مجلس میں بلانے پر نہ جاؤں توکیا ان کو نکا فسخ کرنے کا اختیار ہوگا؟
(۷) میرے چار بچے بالکل معصوم ہیں۔ ہمارے علاحدگی کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ مصیبتوں وپریشانیوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ا س ملک میں میری اس بیوی کے کوئی بھی رشتہ دار نہیں، اس لیے تنہا عورت کا چار بچوں کو صحیح تربیت کرنا بہت ہی دشوار ہوگا، خصوصاً اس ماحول میں اِس بیوی سے بدترین گناہ کے ہوجانے کے بعد ، جب کہ میرا بڑا لڑکا حافظ قرآن ہے ، دوسری بیٹی نے بھی الحمدللہ ۲۲ پارے حفظ کرچکی ہے ۔
(۹) اگر بیوی بالکل ہی رہنے تیار نہ ہوتو میں اپنے بچوں اور جو زیور اور جائیداد میں نے دیے ہیں طلاق کے بدلے مطالبہ کرسکتاہوں؟ مجھ سے بھی یقینا اپنی فیملی کے بارے میں نا سمجھی والے کام ہوئے ہیں، میں اللہ پاک کے حضور اپنے گناہوں کی توبہ کے لیے بہت رویا ہوں اور اب بھی توبہ کرتاہوں ، اللہ پاک میرے معصوم بچوں کو میرے اور بیوی کے غلط فیصلوں سے برباد ہونے سے بچالے آمین۔ تفصیل کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ جلد ازجلد جواب سے مرحمت فرمائیں تو نوازش ہوگی۔

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 627-115/D=8/1437
(۱)قرآن وحدیث کی رو سے کوئی شخص بہ یک وقت چار عورتوں سے نکاح کرسکتاہے ؛لہذا صورت مسئولہ میں آپ کا نکاح کرنا شرعاً درست تھا ؛البتہ آپ پر ضروری ہے کہ دونوں بیویوں کے درمیان ”عدل“ (برابری)قائم کریں، ورنہ آخرت میں سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے۔
(۲) اگر عورت نے ایسا کیا تو بڑا گناہ کیا، کوئی ایسا کام کرنا جس سے میاں بیوی کے تعلقات کشیدہ ہوجائیں بدترین گناہ ہے۔
(۳) رکھ سکتے ہیں، اس کی وجہ سے آپ گنہ گار نہ ہوں گے۔
(۴) اگر اتناہی معاملہ ہے تو اس کی وجہ سے اسے علاحدگی کا اختیار نہیں۔
(۵) فسخ نکاح کی کچھ بنیادیں فقہاء نے مقرر کردی ہیں ”الحیلة الناجزہ“ میں ان کی تفصیل موجود ہے، آپ نے جو تفصیلات ذکر کی ہیں اگر یہ سچ ہیں تو صورت مسئولہ میں فسخ نکاح کی کوئی بنیاد نہیں پائی جارہی ہے، اس لیے محض بیوی کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے فسخ نکاح کی گنجائش نہیں ہوگی اور شوہر کی عدم موجودگی میں فسخ نکاح تو اور بھی برا ہوگا۔
نوٹ: امام کونسل کا جوطریقہٴ کار آپ نے درج کیاہے کہ تمام ممبران (جن کی تعداد تیس سے زائد ہے) ایک ساتھ بیٹھ کر زوجین کے بیانات سنتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ، شرعاً فیصلہ کے لیے اتنی بڑی تعداد کا ہونا ضروری نہیں ہے، نیز زوجین کے اندرونی امور کو اتنے لوگوں کے سامنے لانا بھی قرین مصلحت نہیں، اگر کونسل صلح وصفائی کے لیے زوجین کا بیان لینا ضروری سمجھتی ہے دو تین ممبران کو نمائندہ بنادے وہ از اول تاآخر سماعت کرکے معاملے کا تصفیہ کردے
(۶/۷) بہتر تو یہی ہے کہ کچھ سمجھدار لوگوں کو بیچ میں ڈال کر کشیدگی کو ختم کرالیں اور بیوی کی غلطی کو در گزر کر کے اس کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی گزاریں، اس سے ان شاء اللہ بچوں کا مستقبل خراب نہ ہوگا۔
(۸) اگر آپ کی طرف سے حقوق زوجیت کی ادائیگی میں کمی نہیں ہوئی ہے اور عورت بلا کسی وجہ شرعی کے طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے تو جو کچھ زیورات اورجائداد آپ نے اسکو دیا ہے طلاق کے بدلے اس کا مطالبہ آپ کرسکتے ہیں؛ لیکن اگر کوتاہی آپ کی طرف سے ہوئی اور اس کی وجہ سے عورت نے نشوز اختیار کیا تو پھر آپ کے لیے کسی مال کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔
رہا بچوں کا مسئلہ تو اس سلسلے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ لڑکا سات سال کی عمرتک اور لڑکی نو سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گی، اس کے بعد آپ بچوں کو اپنے پاس بلا سکتے ہیں، طلاق کے بدلے اس عمر سے پہلے بچے آپ کے حوالے کرنے کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔
وکرہ تحریماًأخذ شيٴ … إن نشز وإ ن نشزت لا، ولو منہ نشوزاً أیضاً، ولو بأکثر مما أعطاہا علی الأوجہ إلخ․ (در مختار مع الشامی: ۵/۹۵)
ولو خالعہا علی أن یکون الولد عندہ سنین معلومة صح الخلع، وبطل الشرط؛ لأن کون الولد الصغیر عند الأم حق الولد ، فلا یبطل بإبطالہما․ (شامی: ۵/ ۱۱۱، زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :65133
تاریخ اجراء :May 15, 2016