ہماری شادی کے ساڑھے تین سال کے بعد میری بیوی میرے بچے کے ساتھ ایک مہینہ کے لیے اپنے گھر انڈیا گئی ۔ میں نے اس کو کئی دفعہ بلایا لیکن وہ واپس نہیں آئی۔ میں نے بہت سارے ٹکٹ اورویزے خراب کئے۔ ہر دفعہ اس نے یہ کہتے ہوئے انکار

سوال کا متن:

 ہماری شادی کے ساڑھے تین سال کے بعد میری بیوی میرے بچے کے ساتھ ایک مہینہ کے لیے اپنے گھر انڈیا گئی ۔ میں نے اس کو کئی دفعہ بلایا لیکن وہ واپس نہیں آئی۔ میں نے بہت سارے ٹکٹ اورویزے خراب کئے۔ ہر دفعہ اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس کی ماں اچھی نہیں ہے وغیرہ۔ آخر کار چھ مہینہ کے بعد میں نیا ویزا اورٹکٹ لے کر انڈیا گیا اوروہ میرے ساتھ شارجہ واپس آئے، لیکن میرے تئیں اس کا رویہ بالکل تبدیل ہوچکا تھا۔ اس نے بغیر کسی مناسب وجہ کے مجھ سے طلاق مانگنا شروع کردیا اور واپس بھیجنے کے لیے زور دینا شروع کردیا۔ اسی دوران اس کو معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے ، اسی دن اس نے میرے اوپر دباؤ ڈالا کہ میں ٹکٹ بک کرواؤں بصورت دیگر وہ اپنی ماں کی جانب سے ٹکٹ منگوالے گی۔ اور رونے دھونے لگی کہ وہ یہ بچہ نہیں چاہتی ہے اور طلاق مانگا۔ ایک ہفتہ کے اندر انڈیا پہنچنے کے بعد انھوں نے ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں ایم ٹی پی کروایا۔ (نوٹ: اس کی ماں میڈیکل کالج میں کام کررہی ہے اوراس کی پہلی ڈلیوری بھی ہاسپٹل میں ہوئی تھی)۔ ایم ٹی پی کے بعد انھوں نے مجھ کو اور میرے گھر والوں کو اطلاع دی کہ یہ حادثانی طور پر ہوا۔ دوبارہ تین مہینہ کے بعد میں انڈیا گیا اس کو واپس لینے کے لیے ،لیکن ایک دن پہلے اس نے اپنا پاسپورٹ کھو دیا اور وہ میر ے ساتھ واپس نہیں آئی۔ متعدد دفعہ یاددہانی کے بعداس نے اور اس کے گھر والوں نے نئے پاسپورٹ کے لیے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ میں نے کچھ کوشش کی اور نئے پاسپورٹ، ویزا اور ٹکٹ کا انتظام کرلیا۔لیکن سفر کے دن وہ آدھے راستہ سے واپس چلی گئی یہ کہتے ہوئے کہ ایک ریسٹورانٹ میں وہ چائے سے جل گئی ہے۔ ایک ہفتہ کے بعد دوبارہ میں نے ٹکٹ بک کروایا اس مرتبہ وہ آئی لیکن اس کا رویہ اچھا نہیں تھا اور کہا ”میں تمہیں اپنا شوہر نہیں مانتی“ اورتحریری طور پر طلاق کی مانگ کی اور کہا کہ تم بچہ کو اپنے پاس رکھ سکتے ہو کیوں کہ تمہارے ذرائع زیادہ ہیں ۔اور میں نے اس کو دس دن کے بعد واپس بھیج دیا۔میں نے اس کوڈیڑھ مہینہ کے بعد کوریئر کے ذریعہ تحریری طلاق بھیجی (تین طلاق ”زبانی اور تحریری“ دو مرد گواہوں کے سامنے) اس کی مہر کی رقم اور عدت کے خرچ کے ساتھ۔ میں نے اس کو ای میل سے مطلع کیا، لیکن اس نے طلاق کے کاغذات لینے سے انکار کردیا اور (CAW)سی اے ڈبلیو اور مہیلا کورٹ میں جہیز کا جھوٹا کیس درج کرایا اور معاوضہ کا مطالبہ کیا۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ (۱)کیا طلاق واقع ہوچکی ہے؟ (۲)کیا وہ معاوضہ پانے کی مستحق ہے؟ (۳)میرے چار سال کے بچہ کی تحویل کا کیا مسئلہ ہے، اس وقت وہ میرے ساتھ رہ رہا ہے شارجہ میں؟ والسلام

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم فتوی(ب): 182=183-2/1432
(۱) مذکورہ صورت میں آپ کی بیوی پر تین طلاقیں پڑچکی ہیں، بیوی کے کاغذات لینے سے انکار کرنے کا کوئی اعتبار نہیں، طلاق دینے میں شوہر از روئے شرع مستقل ہوتا ہے۔
(۲) اگر آپ نے واقعةً مہر کی رقم اور عدت کا نفقہ اپنی بیوی کو دے دیا ہے تو وہ (آپ کی بیوی) شرعاً کسی طرح کا معاوضہ یا نفقہ کی مستحق نہیں ہے: ولو أقام الزوج البیّنة علی إقرارہا بانقضاء العدة، سقطت نفقتہا (قاضی خان)
(۳) اتنی عمر تک بچہ سمجھ دار ہوجائے کہ اپنا کام: پیشاب، پاخانہ وغیرہ کرکے خود فارغ ہوجائے یعنی سات سال کی عمر تک، بچے کی پرورش کا حق ماں کو ہے، یعنی اگر ماں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے تو باپ کو انکار کرنے کی گنجائش نہیں ہے؛ البتہ اگر ماں نہ چاہے تو پرورش کرنے پر انہیں مجبور نہیں کیا جائے گا اور مدت پرورش میں بچے کا نفقہ باپ کے ذمہ ہوگا، أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح أو بعد الفرقة الأم ․․․ ولا تجبر علیہا لاحتمال عجزہا (ہندیة: ۱/۵۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :28875
تاریخ اجراء :Jan 16, 2011