اگر کوئی شخص مغرب اور عشاء مزدلفہ میں نہیں پڑھ پایا اور وہ فجر کے وقت مزدلفہ پہنچا تو وہ شخص کیا کرے گا؟ ایسی صورت میں وہ تینوں نمازیں ملا کر پڑھے گا یا صرف فجر پڑھے گا ؟اور فجر کا وقت بھی تنگ ہو تو کیا کرے گا اور کیا اس ک

سوال کا متن:

(۱) حاجی صاحبان کو ۸/ذی الحجہ کو منی بھیج دیا جاتا ہے وہاں ان کو ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور ۹/ ذی الحجہ کی فجر ادا کرنی ہوتی ہے۔ پھر اس کو فجر کے بعد عرفات جانا ہوتاہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر منی اور عرفات کے قیام کے دنوں میں جمعہ پڑ جائے تو حاجی کیا کرے گا؟ جمعہ کی نماز کہاں پڑھے گا منی میں یا عرفات میں ؟ہجوم کی وجہ سے وہاں کی مسجد میں جانا بظاہر ممکن نہیں ہے۔ یا حاجی کو ہر صورت میں جمعہ کی نماز مسجد میں یا حرم شریف میں ہی پڑھنی ہے؟ از راہ کرم اس مسئلہ کو آسان طریقہ سے سمجھا دیں ۔ جزاک اللہ۔ اس مرتبہ یعنی 2011میں ۸/ ذی الحجہ کو جمعہ تھا۔ٹی وی پر حرم شریف میں جمعہ کی نماز دکھائی گئی تھی جس کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ تمام حاجی صاحبان احرام کی حالت میں تھے اور حرم شریف میں جمعہ کی نماز ادا کی تھی۔
(۲) ۹/ ذی الحجہ کو ایک شخص بعد مغرب عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوا اور ساری رات راستے میں بھٹکتا رہا اور راستے میں کسی کے کہنے پر کی مزدلفہ آگیا اس نے مغرب اور عشاء کی نماز ملا کر پڑھ لی اور پھر تھوڑا آگے بڑھا اور فجر کا وقت ہوگیا۔ اس نے فجر کی نماز بھی پڑھ لی اور پھر آگے بڑھنا شروع کر دیا یہاں تک کی دن نکل آیا تب اس کی نظر ایک بورڈ پرپڑی جس پر لکھا تھا کہ مزدلفہ یہاں سے شروع ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صبح سورج طلوع ہونے تک مزدلفہ سے باہر رہا اور اس کا وقوف مزدلفہ میں نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں حج کرنے والے کو کیا کرنا ہے وہ دم دے گا یا کیا کرے گا؟
(۳) اگر کوئی شخص مغرب اور عشاء مزدلفہ میں نہیں پڑھ پایا اور وہ فجر کے وقت مزدلفہ پہنچا تو وہ شخص کیا کرے گا؟ ایسی صورت میں وہ تینوں نمازیں ملا کر پڑھے گا یا صرف فجر پڑھے گا ؟اور فجر کا وقت بھی تنگ ہو تو کیا کرے گا اور کیا اس کو بھی دم دینا ہوگا؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم فتوی(ل): 127=60-2/1433
(۱) منیٰ میں اگر جمعہ کا دن آجائے تو اس دن جمعہ کی نماز منیٰ میں ادا کرسکتے ہیں، اگر مسجد حنیف میں جگہ نہ مل سکے تو خیموں میں بھی جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے حرم شریف جانا ضروری نہیں، البتہ عرفات میں جمعہ کی نماز ادا نہیں کی جائے گی۔
(۲) ایسی صورت میں اس پر دم دینا لازم ہے کیونکہ یہ ایسی غلطی ہے جو بندوں کی طرف سے ہے اور جس کا تدارک ممکن تھا یعنی کسی اور سے بھی معلوم کرسکتا تھا۔
(۳) صورت مسئولہ میں فجر سے اتنی دیر پہلے اس کو مغرب وعشاء کی نماز پڑھ لینی چاہیے تھی جتنی دیر میں وہ دونوں نمازوں کو بآسانی پڑھ لیتا، اگر اس نے ان دونوں نمازوں کو نہیں پڑھا اور فجر کا وقت داخل ہوگیا تو دونوں نمازیں قضا ہوگئیں، ایسی صورت میں اگر وہ صاحب ترتیب ہے تو اس کو ترتیب وار مغرب عشاء اور فجر کی نماز پڑھنا لازم ہے، اور یہ کہ وقت تنگ ہوجائے، اس وقت صرف فجر بھی پڑھ سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :35694
تاریخ اجراء :Jan 1, 2012