مکہ مکرمہ میں مقیم شخص کے لیے تمتع یا تمتع کی شکل کا حکم اور متعلقہ بعض مسائل

سوال کا متن:

(۱) میں مکہ میں مقیم ہوں، اور ملازمت کرتاہوں، حج کا ارادہ ہے ان شاء اللہ، سوال یہ ہے کہ میں نے کئی کتابوں میں پڑھا ہے کہ مقیم مکہ حج تمتع نہیں کرسکتا اور حج افراد کرسکتاہے؟ اب سوال یہ ہے کہ میرا عمرہ کرنے کا ارادہ ہے، اور اگر میں نے یہ عمرہ کرلیا اور حج افراد کروں گا تو یہ دونوں مل کر حج تمتع بن جائے گا؟
(۲) کیا میں حج کے مہینے میں عمرہ اور حج افراد دونوں کرسکتاہوں؟ یا دونوں کو کرنے پر میرا حج” حج تمتع “بن جائے گا اور مجھ پر ہدی (قربانی) واجب ہوجائے گی؟
(۳) کیا میں حج کے مہینے میں اپنے والد مرحوم کی طرف سے عمرہ کرسکتاہوں؟ جب کہ اپنا حج افراد کرنے کا بھی ارادہ ہے؟
(۴) ایک جگہ یہ بھی پڑھا ہے کہ جب جب میں انڈیا چھٹی سے واپس مکہ آؤں گا تومکہ میں احرام میں ہی داخل ہونا پڑے گا۔
براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1031-873/N=12/1440
(۱- ۳): اگر امسال آپ کا ارادہ حج کا ہے تو آپ اب (شوال کے بعد ذی قعدہ یا ۱۰/ ذی الحجہ تک) عمرہ نہ کریں، نہ خود اپنی طرف سے اور نہ اپنے والدین وغیرہ کی طرف سے ؛ بلکہ ایام حج آنے پر صرف حج کریں۔ اور اگر آپ عمرہ کریں گے، پھر ایام حج آنے پر حج بھی کریں گے تو یہ امر ممنوع کا ارتکاب ہوگا؛ کیوں کہ اہل مکہ کے لیے اور جو اہل مکہ کے حکم میں ہوں، ان کے لیے تمتع یا قران ممنوع ہے اور آپ پر دم جبر بھی واجب ہوگا، جس کا سارا گوشت غربا ومساکین کو دیا جائے گا، اس میں سے خود کچھ کھانا یا کسی مال دار کو کھلانا جائز نہ ہوگا۔
یزاد علی الأیام الخمسة ما فی اللباب وغیرہ من کراھة فعلھا - العمرة- في أشھر الحج لأھل مکة ومن بمعناھم من المقیمین ومن في داخل المواقیت؛ لأن الغالب علیھم أن یحجوا في سنتھم فیکونوا متمتعین وھم عن التمتع ممنوعون الخ (رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۴۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، والمکي ومن في حکمہ یفرد فقط ولو قرن أو تمتع جاز وأساء وعلیہ دم جبر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب التمتع، ۳:۵۶۷)، لیس لأھل مکة ولا لأہل المواقیت تمتع ولا قران، إنما لہم أن یفردوا العمرة أو الحج، فإن قارنوا أو تمتعوا فقد أساوٴا، ویجب علیہم الدم لإساء تہم، ولا یباح لہم الأکل منہ (الفتاوی التاتارخانیة، ۳: ۶۲۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
(۴): جی ہاں! آپ جب بھی انڈیا آکر مکہ مکرمہ واپس ہوں گے تو آپ کو میقات پر یا میقات سے پہلے حج یا عمرہ کا احرام باندھنا ہوگا اور مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ کو حج یا عمرہ کرنا ہوگا۔
وحرم تأخیر الإحرام عنھا کلھا لمن أي: لآفاقي قصد دخول مکة یعنی: الحرم ولو لحاجة غیر الحج (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۴۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من أتی میقاتاً بنیة الحج أو العمرة أو دخول مکة أو دخول الحرم لا یجوز لہ أن یجاوزہ إلا بإحرام (البحر العمیق، ص ۶۱۷)، فإن لم یحرم وعاد بعد تحول السنة أو قبلہ فأحرم بما لزمہ بالمجاوزة من المیقات سقط الإثم والدم بالاتفاق (غنیة الناسک، ص ۷۶، ط: مکتبة الشیخ التذکاریة، سھارن فور)، آفاقي مسلم بالغ یرید الحج ولو نفلاًأو العمرة …… وجاوز وقتہ …ثم أحرم لزمہ دم کما إذا لم یحرم فإن عاد إلی میقات ما ثم أحرم ……سقط دمہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الجنایات، ۳:۶۲۰- ۶۲۲)، فالمراد بقولہ:”إذا أراد الحج أو العمرة“ إذا أراد مکة اھ ملخصاً عن الشرنبلالیة، ولیس المراد بمکة خصوصھا؛ بل قصد الحرم مطلقاً موجب للإحرام کما مر قبیل فصل الإحرام وصرح بہ فی الفتح وغیرہ (رد المحتار، ۴:۶۲۱)، وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجہ الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیہ حجة أو عمرة قضاء ما علیہ ودم لترک الوقت (البحر العمیق، ص ۶۶۲)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :172493
تاریخ اجراء :Aug 8, 2019