حج کے 3/4 دنوں کے لئے *بیرون مکہ* سے میقات سے *بغیر احرام کے* گزر کر اور مکہ اور منی میں رہ کر حجاج کی رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں۔

سوال کا متن:

*مسئلہ* کیا *رضارکار* ایک منظم تنظیم کی صورت میں حجاج کرام کی رہنمائی اور مدد کے لئے بغیر کسی حکومتی یا کمپنی کے دباؤ کے اپنی مرضی سے حج کے 3/4 دنوں کے لئے *بیرون مکہ* سے میقات سے *بغیر احرام کے* گزر کر اور مکہ اور منی میں رہ کر حجاج کی رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں، جب کہ انکا ارادہ اور نیت حج، عمرہ یا طواف کی نہ ہو. اور *کیا اس صورت میں ان رضاکاروں پر قربانی (دم) ہو گی؟*
سیاق و سباق یا تعارف* مکہ مکرمہ میں باہر سے جانے والوں کے لیے میقات سے گزرتے وقت احرام ضروری ہوتا ہے، لیکن حج کے دنوں میں پولیس والے ، فوجی ، ڈا کٹر وغیرہ اپنی وردی پورے سعودی عرب سے جاتے ہیں. انکی حکومتی ملازم ہونے کی وجہ سے مجبوری بھی ہے. اور رضاکار بھی جاتے ہیں جن کی اپنی کوئی مجبوری یا عذر نہیں ہوتا. اور وہ اللہ تعالی کے مہمانوں کی رہنمائی (یعنی بھولے ہوئے جاجیوں کو اپنے خیموں کا راستہ بتانے یا ویل چئیر پر ضعیف جاجیوں کو چھوڑنے وغیرہ) کے لیے جاتے ہیں اور اپنے خرچ اور مخیر حضرات کے تعاوں سے ایک باقاعدہ تنظیم کی صورت میں اور تربیتی کلاسیں لے کر اور نقشہ جات اور ویل چئیر کے ساتھ جاتے ہیں. اور وہاں پر کسی بھی حاجی سے کوئی بھی معاوضہ قبول نہیں کرتے. ایسی 2 جماعتیں کام کر رہی ہیں . ایک پاکستان اور ایک انڈیا کی. جو کہ نہ صرف اپنے ملک کے حجاج بلکہ پوری دنیا سے آنے والے حجاج کی مدد اور رہنمائی کرتے ہیں. اور پاکستانی تنظیم میں 2000 سے زیادہ سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی حصہ لیتے ہیں. ان میں ڈاکٹر ، انجئیر سے مزدور تک ہر کوئی ہوتا ہے. اور انکا کسی ایک خاص مسلک سے تعلق نہیں ہوتا. یعنی رضا کار اپنے مسلک کی تبلیغ نہیں کرتے. اور منی سے سیدھے واپسی پر اپنے اپنے کام کی جگہ مکہ مکرمہ سے باہر چلے جاتے ہیں. اور حرم شریف کو اس سفر میں نہیں جاتے. یا جائیں بھی تو کسی ضعیف حاجی کو طواف زیارہ کے لئے لے جاتے ہیں. اور بعد میں دوسرے سفر میں نیت کر کے عمرہ اور طواف بیت اللہ کر لیتے ہیں، اور کوئی نہیں بھی کرتے، کیا اس صورت میں ان پر انفرادی طور پر قربانی ضروری/واجب ہوگی؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1312-187T/H=12/1440
ہندوستان پاکستان کے لوگ تو عامةً حنفی ہوتے ہیں اور حنفی مسلک میں بغیر احرام کے میقات سے گذرنا جائز نہیں خواہ گذرنے والے شخص کا ارادہ حج و عمرہ کا نہ ہو بلکہ کسی بھی کام سے جا رہا ہے چاہے تنظیم سے وابستہ ہوکر رضاکارانہ طور سے حجاج و معتمرین کی خدمت کرنا ہی مقصود ہو تب بھی احرام باندھنا اور عمرہ یا حج کرنا واجب ہو جاتا ہے اگر بغیر احرام باندھے گذر جائے تو واپس میقات پر آکر احرام باندھنا لازم ہے اگر ایسا نہیں کیا تو دم واجب ہو جائے گا پس جو رضاکار حضرات حجاج و معتمرین کی خدمت سے فارغ ہوکر اپنے اپنے جائے قیام کو لوٹ جاتے ہیں اور پھر کسی وقت میں آکر عمرہ و طواف کر لیتے ہیں اوردم بھی ذبح کردیتے ہیں ان کے ذمہ تو کچھ واجب نہیں رہتا اور جو حنفی رضاکار حضرات عمرہ نہیں کرتے ان پر دم اور عمرہ واجب رہتا ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ رضاکار لوگ ایک دو دن پہلے مکة المکرمہ (زادہا اللہ شرفا وکرامةً وہیبةً) میں پہونچ کر اطمینان سے عمرہ کر لیا کریں اور اس کے بعد حجاج و معتمرین کی خدمت میں مشغول ہو جایا کریں خدمت حجاج سے لوٹ کر جانے اور پھر عمرہ کے لئے آنے کا زمانہ طویل بھی ہو سکتا ہے موت و حیات اپنے قبضہ میں نہیں معلوم نہیں کیا صورت پیش آجائے؟ اور عمرہ و دم ذمہ میں واجب رہ جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :172386
تاریخ اجراء :Aug 8, 2019