آسٹریلیا میں گوشت اور اس کے کاروبار سے متعلق چند اہم مسائل

سوال کا متن:

سوال: درج ذیل تین سوالات کے حوالے سے مدلل و مفصل تحریری فتوی درکار ہے ؛
[1] میں آسڑیلیا میں رہتا ہوں، یہاں ایک مسلمان گوشت فروش ہے ۔ وہ سلاٹر ہاوس میں جاکر بکرے اور گائے ہاتھ سے چھری پکڑ کر تکبیر پڑھ کر ذبح کرتا ہے ۔ سلاٹر ہاوس کفار{ غیر کتابیوں} کی ملکیت ہے ۔ جو جانور وہ مسلمان ذابح نے ذبح کیے ہوتے ہیں، ان کو کھال اتار کر نمبر الاٹ کرکے سلاٹر ہاوس میں سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے ۔ پھر 24 گھنٹے بعد مسلمان گوشت فروش وہ سالم ذبح شدہ جانور وہاں سے خرید کر لاتے ہیں اور مسلمانوں کو بیچتے ہیں۔ مسلمان قصابوں کے بقول ان کے ذبح شدہ جانور {جن پر نمبر الاٹ کیے جاتے ہیں } وہ کفار کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کے ساتھ تبدیل ہو جائیں ایسا نہیں ہوتا، سرد خانے وغیرہ پر مامورتمام مزدور بھی غیرمسلم {غیر کتابی} ہوتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی جانور ہیں جنہیں مسلمان ذابح نے ذبح کیا ہے ۔ شرعی رہنمائی فرمائیں:
{1} کیا مذکورہ بالا جانور جن پر نمبر الاٹ کیے جاتے ہیں مسلمان گوشت فروشوں کو یہ خریدنا جائز ہے ؟
{2} ان گوشت فروشوں کا یہ گوشت عام مسلمانوں کو بیچنا کیسا ہے ؟
[2] یہاں آسڑیلیا میں بڑے جانور مثلا گائے کو ذبح کرنے سے پہلے اس کے سر پر ایک بجلی کی نوک دار گن سے کرنٹ دیا جاتا ہے ، کچھ لوگ زوردار خاص آلات سے مارتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے سر میں گن سے بولٹ شوٹ کرتے ہیں ۔ اس پروسیس کو سٹننگ کہتے ہیں۔اس سے جانور بظاہر زندہ ہی ہوتا ہے لیکن اس کا دماغ ختم ہو جاتا ہے یا کچھ درجہ مفلوج ہوجاتا ہے ۔لیکن ظاہری طور پر جان نظر آتی ہے جیسے ہلنا وغیرہ۔ تو اس طرح ذبح کیے گئے جانور کا گوشت خریدنا اور کھانا کیسا ہے ؟ اگر جانور کو اس طرح سے چوٹ دی جائے کہ اگر اسے ذبح نہ کیا گیا تو خود بخود مر جائے گا تو اس طرح کی چوٹ دینے کے بعد مرنے سے پہلے پہلے ذبح کیے گئے جانور کا حکم بھی بیان فرما دیجئے ۔
[3] یہاں آسٹریلیا میں مارکیٹ میں چکن دو طرح کا ملتا ہے کچھ کے پاس ہاتھ سے ذبح شدہ ہوتا ہے اور کچھ مشین سے ذبح شدہ چکن فروخت کرتے ہیں۔ مشین سے ذبح شدہ چکن کا حکم بیان فرما دیجئے اور یہ بھی کہ اگر ہم کسی مسلمان کے ہاں دعوت پر گئے تو کیا یہ پوچھنا لازم ہے کہ وہ یہ تحقیق کر کے لایا ہے کہ یہ ہاتھ سے ذبح شدہ ہے ؟اور اگر اس کو معلوم نہ ہو کہ ہاتھ سے ذبح شدہ ہے یا مشین سے ۔ تو پھر اس کا کیا حکم ہوگا؟ پہلے کے دو سوالات میں کسی مسلمان کے مہمان ہونے کی صورت میں گوشت کھانے کے حوالے سے شرعی احکام بیان فرما دیجئے ۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:701-112T/N=11/1440
(۱): اگر آپ کے یہاں آسٹریلیا میں سلاٹر ہاوٴس اور کولڈ اسٹور (سرد خانہ) کا نظام واقعی قابل اطمینان ہے، یعنی: مسلمان ذابح اور سرد خانے کے غیرمسلم ملازمین وغیرہ اپنے احوال کی روشنی میں اس درجہ قابل اطمینان ہیں کہ ان کے بارے میں غاکب گمان یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کو غیر مسلموں کے ذبح کیے ہوئے جانوروں سے خلط نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی خلط ہونے دیتے ہیں تو ایسی صورت میں گوشت فروش مسلمانوں کے لیے مسلمان کے ذبح کیے ہوئے جانور خریدنا اور ان کا گوشت عام مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرنا جائز ہے(فتاوی دار العلوم دیوبند، ۱۵: ۴۴۴، ۴۴۵، سوال: ۱۲۲، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند) اور اگر کسی کے یہاں دعوت میں اس طرح کا گوشت ہو تواس کے کھانے میں بھی کچھ حرج نہیں۔
ویقبل في المعاملات قول الفرد ولو أنثی أو عبداً أو فاسقاً أو کافراً کقولہ: شریت اللحم من مسلم أو کتابي فیحل أو مجوسي فیحرم (ملتقی الأبحر مع المجمع والدر، کتاب الکراھیة، فصل في الکسب، ۴:۱۸۷، ۱۸۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وھذا إذا غلب علی الرأي صدقہ، أما إذا غلب علیہ کذبہ فلا یعتمد علیہ (مجمع الأنھر)۔
(۲): ذبح سے پہلے جانور کے سرپر بجلی کی نوک دار گن سے کرنٹ دے کر یا زور دار خاص آلات سے مارکر یا سر میں گن سے بولٹ شوٹ کرکے بیہوش کرنا وغیرہ، جانور کو کسی واقعی ضرورت کے بغیر محض اپنی آسانی وسہولت کے لیے اذیت وتکلیف پہنچانا ہے، جو شریعت میں ناجائز و مکروہ تحریمی ہے ؛ اس لیے یہ طریقہٴ ذبح شرعاً درست نہیں اگرچہ گوشت اس صورت میں بھی حرام نہیں ہوگا، اپنے گھر میں یا دوسرے کے یہاں دعوت میں اس طرح کا گوشت کھانا ناجائز نہ ہوگا؛ البتہ اگر جانور کرنٹ وغیرہ کی شدت برداشت نہ کرکے ذبح ہونے سے پہلے ہی مرگیا تو وہ حرام ومردار ہوجائے گا اور اس کا کھانا جائز نہ ہوگا، خلاصہ یہ کہ ذبح کے اس طریقہ کار سے بہرصورت بچنا چاہیے (فتاوی محمودیہ۱۷: ۲۶۰، ۲۶۱، سوال:۸۳۴۹، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل)۔
وکرہ کل تعذیب بلا فائدة مثل قطع الرأس والسلخ قبل أن تبرد ، أي: تسکن عن الاضطراب، وھو تفسیر باللازم کما لا یخفی (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح، ۹: ۴۲۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،وکرہ النخع ……وکل ذلک مکروہ ؛ لأنہ تعذیب الحیوان بلا ضرورة ، والحاصل أن کل ما فیہ زیادة ألم لا یحتاج إلیہ فی الذکاة مکروہ کذا فی الکافي (الفتاوی الھندیة، ۵: ۲۸۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ذبح شاة مریضة فتحرکت أو خرج الدم حلت وإلا لا إن لم تدر حیاتہ عند الذبح، وإن علم حیاتہ حلت مطلقاً وإن لم تتحرک ولم یخرج الدم کذا فی الدر(الدر المختار مع رد المحتار، ۹: ۴۴۷)، قولہ:”فتحرکت“:أي: بغیر نحو مد رجل وفتح عین مما لا یدل علی الحیاة کما یأتي، قولہ:”أو خرج الدم “:أي: کما یخرج من الحي، قال في البزازیة: وفي شرح الطحاوي: خروج الدم لا یدل علی الحیاة إلا إذا کان یخرج من الحي عند الإمام وھو ظاہر الروایة (رد المحتار)۔
(۳): اسلام میں مشینی ذبح جائز نہیں ہے ، اس میں ذبح شرعی کی شرائط نہیں پائی جاتیں؛ لہٰذا مشین سے ذبح شدہ مرغ سے اجتناب کیا جائے اور جو مرغ ہاتھ سے شرعی طریقہ پر ذبح کیا جاتا ہو، صرف وہ کھایا جائے۔ اور جب مارکیٹ میں دونوں طرح کا گوشت رائج ہے اور عام لوگ احتیاط بھی نہیں کرتے تو دعوت کے موقعہ پر میزبان سے تحقیق کرلینے میں کچھ حرج نہیں؛ بلکہ جب کوئی کھانے کی دعوت دے تو دعوت قبول کرنے کے ساتھ میزبان کو مشینی ذبیحہ کے گوشت سے اجتناب کے لیے کہہ دیا جائے۔ اور اگر میزبان کو معلوم نہ ہواور لوگوں میں دونوں طرح کا گوشت رائج ہو تو ایسا گوشت کھانے سے احتراز چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :169700
تاریخ اجراء :Jul 30, 2019