ایك بیوی‏، ماں‏، ایك بھائی اور تین بہنوں كے درمیان تقسیم وراثت

سوال کا متن:

میرے چچا سرکار ملازم تھے، دوران ملازمت ان کا انتقال ہوگیا، مرحوم کی کوئی اولاد نہیں ہے، نہ بیٹا اور نہ بیٹی، ان کی صرف ماں، بھائی اور تین بہنیں حیات ہیں، حکومت مالی معاونت (2,200,000) روپئے ، جی پی فنڈ، پی ایف ، گروپ انشورنس (600,000) روپئے وغیرہ دیتی ہے، مرحوم کے ترکے میں کچھ پلاٹ اور بینک بیلنس ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ مرحوم نے حج کے لیے درخواست دی تھی اور درخواست حج فارم میں انہوں نے اپنی بیوی کا نام لکھا تھا اس لیے ان کی بیوی نے بینک سے حج کے لیے رقم نکال لی ہے، میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ مرحوم کے وارثوں میں کونسی کونسی چیز تقسیم کی جائے گی اور کس کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1001-868/N=12/1440
(۱): مرحوم نے اپنی وفات پر اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم کے وارثین میں حسب شرع تقسیم ہوگا۔ حسب سوال مرحوم کی چھوڑی ہوئی چیزوں میں مرحوم کے پلاٹ، بیک بیلنس، حج کے لیے جمع کی ہوئی رقم ، جو بیوی نے (نو منی ہونے کی بنا پر) نکال لی ہے، اور جی پی فنڈ، پی ایف اور گروپ انشورنس وغیرہ کی رقم؛ البتہ گروپ انشورنس میں صرف اصل جمع کردہ رقم جائز ہوگی اور مزید ملنے والی رقم بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدینا ضروری ہوگا۔
(۲): اگر مرحوم نے اپنے وارثین میں صرف ایک بیوی، ماں، ایک بھائی اور ۳/ بہنیں چھوڑی ہیں اور مرحوم کے والد کا انتقال مرحوم سے پہلے ہی ہوگیا تھا تو مرحوم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ ۶۰/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۱۵/ حصے بیوہ کو ، ۱۰/ حصے ماں کو، ۱۴/ حصے بھائی کو اور ۷، ۷/ حصے ہر بہن کو ملیں گے۔ تخریج نقشہ حسب ذیل ہے:
زوجہ = 15
أم = 10
أخ = 14
 أخت = 7
 أخت = 7
 أخت = 7
 قال اللہ تعالی:﴿ولھن الربع مما ترکتم إن لم یکن لکم ولد الآیة﴾ (سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)، فیفرض للزوجة فصاعداً…… الربع … عند عدمھما- الولد و ولد الابن- (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال اللہ تعالی: وإن کانوا إخوة رجالا ونساء فللذکر مثل حظ الأنثیین (سورہ النساء، رقم الآیة: ۱۷۶)، وعن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فھو لأولی رجل ذکر منھم، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب الفرائض، الفصل الأول، ص ۲۶۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وللأم …السدس مع أحدھما أو مع اثنین من الإخوة أو من الأخوات فصاعداً من أي جھة کانا الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰: ۵۱۴)، ثم العصبات بأنفسھم أربعة أصناف: جزء المیت ثم أصلہ ثم جزء أبیہ ثم جزء جدہ ویقدم الأقرب فالأقرب منھم بھذا الترتیب فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وإن سفل الخ ثم جزء أبیہ: الأخ لأبوین الخ (المصدر السابق، ص:۵۱۸- ۵۲۱)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :172085
تاریخ اجراء :Aug 25, 2019