بلڈنگ کے اوپر مسجد اور چند متعلقہ احکام

سوال کا متن:

ہمارے شہر میں اس طرح کی مسجدوں کا رواج اوپر بلڈنگ یا دکان وغیرہ ہوتا ہیں اور نیچے مسجد تو کیا یہ شرعی مسجد کہلائے گی کیا مسجد کہ لیے یہ ضروری ہے کہ سات آسمان اور زمین تک کچھ نہیں ہونا چاہیے اور کیا مسجد کے احکام اس پر آئیں گے ؟ کیا اسے مسجد کہہ سکتے ہے؟ با حوالہ جواب عنایت فرمائیں، نوازش و احسان ہوگا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم


Fatwa:156-192/N=3/1441


(۱- ۴): شریعت کی نظر میں مسجد وہی ہے ، جس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی بندے کا کوئی مالکانہ حق وابستہ نہ رہے، یعنی: مسجد شرعی صرف وہ جگہ ہوتی ہے، جس کی فوقانی یا تحتانی منزل کے ساتھ کسی انسان کا کوئی حق وابستہ نہ ہو اور وہ زمین تحت الثری سے عنان سما (ظاہر آسمان ) تک پوری کی پوری مسجد شرعی ہو یا کوئی ایک یا چند منزلیں مسجد شرعی ہوں اور(بنائے اول سے) فوقانی یا تحتانی دیگر منزلیں مسجد پر وقف ہوں، ان میں سے کوئی منزل کسی بندے کی ملک نہ ہو؛ لہٰذا اگر کسی بلڈنگ کا صرف کوئی فلیٹ یا منزل نماز کے لیے خاص کردی جائے اور فوقانی یا تحتانی بقیہ منزلیں نہ مسجد قرار دی جائیں اور نہ مسجد پر وقف کی جائیں ؛ بلکہ کسی ایک یا چند لوگوں کی ملکیت ہی رہیں تو نماز کے لیے خاص کردہ فلیٹ یا منزل مسجد شرعی نہ ہوگی ، وہ صرف مصلی (جماعت خانہ) ہوگا۔


پس آپ کے شہر (ممبئی) میں اگر اسی طرح کی کچھ مسجدیں بنائی گئی ہیں، یعنی: کسی بلڈنگ کا کوئی فلیٹ یا منزل نماز کے لیے خاص کردی گئی اور بقیہ منزلیں حسب سابق مالکان کی ملک ہیں، جن میں رہائشی فلیٹ یا دکان وغیرہ ہیں تو وہ صرف جماعت خانے ہیں، مسجد شرعی نہیں ہیں، ان میں نہ اعتکاف صحیح ہوگا اور نہ مسجد شرعی کے دیگر احکام جاری ہوں گے اور اشتباہ سے بچنے کے لیے انھیں صرف مصلی (جماعت خانہ) کہا جائے گا، مسجد نہیں کہا جائے گا۔


حتی لو لم یخلص المسجد للّٰہ تعالی بأن کان تحتہ سرداب أو فوقہ بیت،أو جعل وسط دارہ مسجداً وأذن للناس بالدخول والصلاة فیہ لا یصیر مسجداً ویورث عنہ إلا إذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ (الاختیار لتعلیل المختار ۲: ۵۲۴،ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،قولہ:”أو جعل فوقہ بیتاً الخ“ ظاھرہ أنہ لا فرق بین أن یکون البیت للمسجد أو لا، إلا أنہ یوٴخذ من التعلیل أن محل عدم کونہ مسجداً فیما إذا لم یکن وقفاً علی مصالح المسجد ،وبہ صرح فی الإسعاف فقال: وإذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ صار مسجداً اھ شرنبلالیة۔ قال فی البحر: وحاصلہ أن شرط کونہ مسجداً أن یکون سفلہ وعلوہ مسجداً لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: ”وأن المساجد للہ“بخلاف ما إذا کان السرداب والعلو موقوفاً لمصالح المسجد فھوکسرداب بیت المقدس، وھذا ھو ظاہر الروایة، وھناک روایات ضعیفة مذکورة فی الھدایة (رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح، أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع الخ تاتر خانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸) ومثلہ في الکتب الأخری من الفقہ الفتاوی ۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :174219
تاریخ اجراء :Nov 20, 2019