كیا نكاح كے لیے فیملی كے مرد حضرات لڑكی كو دیكھ سكتے ہیں؟

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علمائے اکرام مسلئہ ذیل کے بارے میں۔1۔کیا فیملی کے لوگ اپنے لڑکے کے لئے لڑکی کو دیکھ سکتے ہیں اور کیا لڑکے پر یہ لازمی ہے کے جو لڑکی فیملی والوں نے دیکھی ہے اس کو پسند کرنا ضروری ہے تو وضاحت فرمائے۔
2۔اسی سلسلے میں ہمارے یہ ہم نے اپنے بھائی کے لیئے ایک لڑکی کو پسند کیا اور ہم نے راستہ اختیار کر لیا ہمارے رشتے کی بھائی کی لڑکی نے لڑکی کے پرانی فوٹو ہمارے بھائی کے واٹس ایپ پرڈالے اور یہ بات لڑکی والوں کو بتایا کہ لڑکے نے آن لائن لڑکی کو دیکھ لیا اس بنا پر لڑکے والوں نے لڑکی کو 2100روپیہ اور ساتھ والوں نے بھی کُچھ روپیہ بھی دیا ۔اس کے بعد لڑکی والوں نے بھی لڑکے کو کپڑے اور جوتے ایک چاندی کی رنگ اور 5100روپیہ اور ساتھ والوں کی بھی کپڑے اور 500روپیہ 5سے 6لوگو کو دیے کل ملاکر 15ہزار کی تقریباً روپیہ بیٹھ تھے ۔ اس کے ہفتے بعد لڑکی والوں نے لڑکی کے نیو فوٹو ہمارے موبائل فون پر بھیجے ۔ان فوٹو کو لڑکے نے دیکھ کر رشتہ منع کر دیا ۔اس کے بعد لڑکی والوں نے 40 ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا نہیں دو گے تو جیل جانے کے لیئے تیار رہے اور جو کپڑے وغیرہ دیے ان کو لینے سے انکار کیا۔کیا ان کا یہ طرزِ عمل صحیح ہے؟اور ہم نے اپنی غلطی بھی ماں لی ۔ہمارے والد مرحوم کے بھائی نے 35ہزار روپیہ میں فیصلہ کر دیا ۔ہم نے اپنے بھائی کی غلطی کی وجہ سے 35ہزار روپیہ دے دیئے۔اس کے بعد کیا ہم لڑکی والوں کے گنہگار ہے ۔تو رہنمائی فرمائیں اور ساتھ میں یہ بھی بتائیں کہ بنا لڑکے کی پسند سے رشتہ کریں یہ نہ کریں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1431-1278/L=01/1441
نکاح کے ارادہ کے وقت اگر ممکن ہو سکے تو ایک نظر خود لڑکے کا دیکھ لینا یا فیملی کی کچھ عورتوں کا لڑکی کو دیکھ لینا یہ مستحب ہے، دیکھنے کے بعد لڑکی کے اوصاف بتاکر لڑکے سے رائے لے لینا بھی مناسب ہے؛ تاکہ بعد میں دونوں کے نباہ کی امید زیادہ رہے؛ البتہ فیملی کے مردوں کا لڑکی کو دیکھنا درست نہیں، واضح رہے کہ فیملی کے لوگوں کا لڑکی کو دیکھنے کے بعد لڑکے کے لئے اسی جگہ نکاح کرنا لازم و ضروری نہیں (گو حسب وعدہ نکاح کرنا بہتر ہے)؛ لہٰذا اگر بعد میں لڑکے کی رائے اس جگہ نکاح کرنے کی نہیں بنتی ہے تو منع کرنے کی بھی گنجائش ہے، اور اس صورت میں لڑکے اور لڑکی والوں نے ایک دوسرے کو جو چیزیں دیں اگر وہ موجود ہیں تو ان کو واپس لینے کی گنجائش ہے؛ البتہ مذکورہ بالا صورت میں لڑکی والوں کا انکار کی وجہ سے زائد رقم لینا اور نہ دینے کی صورت میں جیل کی دھمکی دینا جائز نہیں تھا اور انہوں نے جتنی رقم زائد وصول کی اس کی واپسی ان پر لازم ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :172476
تاریخ اجراء :Sep 7, 2019