كرائے كی رسید دادا كے نام كٹنے كی وجہ كیا وہ دكان دادا كی ملك شمار ہوگی؟

سوال کا متن:

میرا نام محمّد ارشد ہے ، میں نے بازار میں ایک کرائے والی دکان خریدی تھی جس کی پگڑی کی پوری رقم میں نے اپنی طرف سے دکان خالی کروائی کے پرانے کرائے دار کو دی. جو کہ سرکاری اسٹامپ اور سرکاری کاغذات پر لکھت طور پر میرے نام موجود ہے ! لیکن جو کرائیداری کی رسید تھی وہ میرے دادا کے نام سے کاٹی جاتی تھی جس کی رقم بھی میں ادا کرتا تھا اور دکان بھی میں ہی استعمال کرتا ہوں ، اب سوال یہ ہے کہ دادا کی وفات ہو گئی ہے تو یہ دکان مجھے ملے ح گی؟ یہ پھر اِس کو دادا کے وارثوں میں تقسیم کی جائے گی ؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم


Fatwa:538-428/L=6/1441


صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے وہ دوکان مالک سے خریدی ہے تو آپ ہی اس دوکان کے مالک شمار ہوں گے دوکان کی رسید دادا کے نام سے کٹنے کی وجہ سے وہ دوکان دادا کی شمار نہ ہوگی اور نہ ہی وہ دوکان دادا کے ورثاء میں تقسیم ہوگی ۔


 قال فی فقہ البیوع :وماذکرنا من حکم التلجئة یقاربہ مایسمی فی القوانین الوضعیة عقوداصورتہ.... وہی أن یشتری باسم غیر المشتری الحقیقی تسجل الأرض باسمہ فی الجہات الرسمیة وذلک لأغراض ضریبة أولأغراض أخری ولکن المشتری ہوالذی دفع ثمنہ ... وعلی ہذ الأساس أفتی علماء شبہ القارة الہندیة بأن مجرد تسجیل الأرض باسم أحد أوباسم رجل آخر لم یدفع الثمن وإنما دفع الثمن من قبل الأول فمجرد ہذالتسجیل لایعنی أنہ وہب لہ الأرض .( فقہ البیوع :1/226)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :176346
تاریخ اجراء :Feb 9, 2020