(۱)مختلف کھیل اور اخلاقی پروگراموں کی ویڈیوز یوٹوب پر اپلوڈ کرکے کمائی کرنے کا حکم۔ (۲) بلا اجازت ہیٹر پر پکائے ہوئے کھانے کا حکم۔ (۳) ڈیوٹی کے اوقات میں کام کی چوری اور اس کی تنخواہ کا حکم

سوال کا متن:

امید کرتا ہوں خیروعافیت سے ہوں گے۔ محترم صاحب! حرام تو اس طرح ہے جس طرح پیٹ میں آگ ڈالنا ہے اور تقریبا 40 دن تک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔جناب یہاں پوچھنا ہے کہ ایک حرام تو چوری،سود ، سفارش،کسی کا حق مارنا وغیرہ ہے جس پہ یہ حکم ہے کہ پیٹ میں آگ ڈالنا ہے۔اور نماز قبول نہیں ہوتی۔یہاں تک صحیح ہے،لیکن محترم بھائی ۔فوٹوگرافی،کھیلوں،اخلاقی ویڈیوز بنانا جس میں میوزک اورفحاشی نہ ہو جیسا کہ یوٹیوب پہ انسانوں کی ویڈیوز ہو،جس سے آپ کی امدنی ہو،اس سب پہ بھی یہی حکم ہے کہ 40 دن نماز قبول نہیں ہوتی اور پیٹ میں آگ ڈالناہے،
(۲) اس کے علاوہ کوئی ادارہ آپ کو کسی چیز سے منع کرے جس پہ جرم ہو،مثلا ہیٹر پہ پابندی ہو اور اس پہ آپ چپکے چپکے پکائی کرتے ہو اور وہ کھانا آپ کھاتے ہو کیا یہ بھی اس حرام کے زمرے میں آتا ہے جیسا پیٹ میں آگ ڈالنا ہے؟
(۳) اور ڈیوٹی ہو جس میں آپ کام چوری کرتے ہوکیا وہ تنخوا بھی حرام ہے؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم


Fatwa:229-37T/N=4/1441


(۱): آپ نے چوری اور سود وغیرہ کے بارے میں یہ کہاں پڑھ لیا یا سن لیا کہ ۴۰/ دن تک نمازیں قبول نہیں ہوتیں اور ایسا مال کھانا پیٹ میں آگ بھرنا ہے؟ باقی آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ شریعت میں صرف ضرورت ومجبوری کی شکلوں میں انسان یا کسی جان دار کی تصویر کشی یا ویڈیو سازی کی اجازت ہے، عام حالات میں نہیں ؛ لہٰذا اگر کوئی مختلف کھیلوں یا اخلاقی پروگراموں کی ویڈیو سازی کرتا ہے اور اس میں انسانوں کی تصویریں آتی ہیں تو یہ ناجائز ہے ؛ البتہ ایسی ویڈیوز یوٹوب پر اپلوڈ کرکے کمائی کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلہ میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں:


الف : یہ ویڈیوز کس قسم کے کھیلوں اور اخلاقیات پر مشتمل ہوتی ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔


ب: ان ویڈیوز کے ساتھ یوٹوب کمپنی کو اپنے اشتہارات پیش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے یا نہیں؟


ج: اگر دی جاتی ہے تو اس کے اشتہارات کس قسم کے ہوتے ہیں؟


عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”أشد الناس عذاباً عند اللہ المصورون“، متفق علیہ، وعن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:”کل مصور فی النار یجعل لہ بکل صورة صورھا نفسا فیعذبہ فی جھنم“، قال ابن عباس :فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا روح فیہ، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب التصاویر، الفصل الأول،ص ۳۸۵، ۳۸۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


وعن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:یخرج عنق من النار یوم القیامة لہا عینان تبصران وأذنان تسمعان ولسان ینطق، یقول:إنی وکلت بثلاثة:بکل جبار عنید وکل من دعا مع اللہ إلہا آخر وبالمصورین“رواہ الترمذي (المصدر السابق، الفصل الثاني، ص ۳۸۶)۔


وعن سعید بن أبی الحسن قال:کنت عند ابن عباس إذ جاء ہ رجل فقال:یا ابن عباس! إنی رجل إنما معیشتی من صنعة یدی،وإني أصنع ہذہ التصاویر، فقال ابن عباس:لاأحدثک إلا ما سمعت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سمعتہ یقول:”من صور صورة فإن اللہ معذبہ حتی ینفخ فیہ الروح ولیس بنافخ فیہا أبدا“فربا الرجل ربوة شدیدة واصفر وجہہ، فقال:ویحک إن أبیت إلا أن تصنع فعلیک بہذا الشجر وکل شی لیس فیہ روح۔رواہ البخاري (المصدر السابق، الفصل الثالث)۔


(۲): کسی ادارے میں ہیٹر کی پابندی کے باوجود ہیٹر پر کوئی کھانا بنانا ناجائز ہے؛ لیکن اگر کسی نے اس پر کوئی کھانا بنالیا تو کھاناحرام نہ ہوگا؛ البتہ ہیٹر کے ذریعے استعمال کردہ بجلی کا ضمان واجب ہوگا (امداد الفتاوی، ۴: ۱۴۷، سوال: ۱۸۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔


ولا یجوز حمل تراب ربض المصر الخ (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، إن المحظور لغیرہ لا یمتنع أن یکون سببا لحکم شرعي الخ (تبیین الحقائق، ۶: ۳۲۴، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)۔


(۳): ڈیوٹی کے اوقات میں معروف طریقے سے ہٹ کر چوری کی گئی ، مثلاً کسی دن غیر حاضر ر ہ کر حاضری لگوائی گئی تو غیر حاضری کے دن کی تنخواہ جائز نہ ہوگی۔ اور اگر کسی طرح سے بھی تنخواہ کا وہ حصہ یا اس کا عوض ادارے کو واپس نہیں کیا گیا تو حرام کھانے کا گناہ ہوگا۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :174616
تاریخ اجراء :Dec 3, 2019