جو حصہ ماں نے بڑے بیٹے کے نام کیا‏، كیا وہ اس كا مالك ہوگا؟

سوال کا متن:

محترم جناب مفتی صاحب! میرا نام شکیلہ بی بی ہے میری اپنی پھپھو کے گھر شادی ہوئی ان کے حالات کمزور تھے جائیداد بھی نہیں تھی ۔ جو زیور مجھے میری شادی پر ملا وہ بیچ کر میں نے ساڑھے تین مرلہ زمین خریدی اور میرے والد صاحب اور میرے خاوند نے اس پر مکان تعمیر کر کے دیا ۔ میرے خاوند کا ایک ہی بھائی ہے اس وقت میرے والد نے اپنی مرضی سے وہ مکان دونوں بھائیوں کے نام کردیا اور میری دوسری بہن کی بھی میرے دیور کے ساتھ شادی کر دی ۔ جب میری اولاد جوان ہو ئی اس وقت میرے خاوند کے معاشی حالات بہتر نہ تھے اور گھر کی ذمہ داری میرے بڑے بیٹے نے اٹھا لی ۔ اس دوران میرے دیور کو اس کا حصہ دے کر اس گھر سے فارغ کر دیا جس کا حصہ اس وقت مبلغ ڈیڑھ لاکھ روپیہ بنتا تھا جس میں سے دو حصے میرے بڑے بیٹے نے دئیے اور ایک حصہ میں نے دیا ۔ جو حصہ میرے بیٹے نے میرے دیور کو دیا وہ حصہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام کر دیا ۔ اس کے بعد میرے بڑے بیٹے کی شادی ہوئی اور اس دوران میرے خاوند کے معاشی حالات بھی سنبھل گئے اور گھر کی ذمہ داری بھی انہوں نے سنبھال لی ۔ اس کے بعد میری تین بیٹیوں کی شادی ہوئی جس پر تمام اخراجات میرے بڑے بیٹے نے اٹھائے جبکہ میری تینوں بیٹیوں کی شادی ایک ہی دعوت پر ہوئی ۔ جب میرے چھوٹے بیٹے کی شادی ہوئی تو اس کو ہم نے گھر کے اوپر والے پورشن میں شفٹ کرنا پڑا جس کی تعمیرپر ہم سب نے مل کرا خراجات اٹھائے جس پر مبلغ چھ لاکھ روپے خرچہ آیا جس میں تقریباً اڑھائی لاکھ روپے میں نے دئیے، پچاس ہزار میرے چھوٹے بیٹے نے دئیے اور بقایا پیسے میرے بڑے بیٹے نے لگائے ۔ میں اپنے مکان میں سے آدھا حصہ اپنے بڑے بیٹے کے نام کر چکی ہوں ۔ اب میرے بڑے بیٹے کا مطالبہ ہے کہ میں نے اپنی بہنوں کی شادی بھی کی ہے اور مکان پر بھی پیسے لگائے ہیں لہٰذا سارا مکان میرے نام کیا جائے اور سمیت بہنوں کے اس مکان میں کسی کا بھی کسی قسم کا کوئی حصہ نہ ہے ۔ آپ سے التماس ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے اور فتویٰ دیا جائے کہ کیا واقعی ہی میرا بڑا بیٹا سارے مکان کا حقدار ہے یا میرے چھوٹے بیٹے اور باقی بیٹیوں کا بھی حصہ ہے ۔ میں اپنے تمام بچوں کے ساتھ انصاف کا فیصلہ چاہتی ہوں۔ برائے مہربانی جواب ضرور عنایت فرمائیں۔ شکریہ

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم


Fatwa : 545-449/D=07/1441


سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مکان کا جو حصہ ماں نے بڑے بیٹے کے نام کیاوہ اس رقم کے معاوضہ میں ہے جو بڑے بیٹے نے چچا کو دی تھی، اگر ایسا ہی ہے تو بڑا بیٹا اس حصے کا مالک ہوگا۔ باقی بہنوں کی شادی میں اسی طرح گھر کی تعمیر میں بڑے بیٹے نے جو کچھ خرچ کیا ہے تو اگر بیٹے باپ کے ساتھ ہی رہتے تھے، آمدنی ایک ساتھ خرچ ہوتی تھی اور قرض وغیرہ کی کوئی صراحت بھی نہیں کی تھی تو یہ سب بیٹے کی طرف سے تبرع شمار ہوگا؛ لہٰذا مکان کا بقیہ حصہ تمام ورثہ کے درمیان حصہ شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :176694
تاریخ اجراء :Mar 5, 2020