سوال کا متن:
ہمارے یہاں ایک عورت روزہ رکھنے سے عاجزہے تو اس نے فدیہ کے طورپر ہر روز دو مسکین کو ایک وقت کا کھانا کھلایا اسطرح تیس دن تک کھلاتارہا، تو ہمارا سوال یہ ہے کہ اسطرح دو آدمی کو ایک وقت کرکے کھلانے سے فدیہ ادا ہوگا؟ اور کیا یہ اگر تیس روزہ کے لئے کافی نہ ہو تو پندرہ کے لئے کا فی ہوسکتاہے؟
جواب کا متن:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:649-508/sn=7/1441
اگر یہ عورت پیرانہ سالی یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہے تو اس کے لیے ”فدیہ“ادا کر نے کی گنجائش ہے، ایک روزے کا فدیہ صدقة الفطر کے بہ قدر غلہ یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا ہے، اگرکوئی شخص ایک مسکین کو دو وقت کھانا کھلادے تب بھی فدیہ ادا ہوجاتا ہے اور حسب تصرح فقہاکفارہ یمین سے اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس میں مساکین کی تعداد اور ہر مسکین کے لیے فدیہ کی خاص مقدار شرط نہیں ہے۔ (عمدة الفقہ، 3/343، کتاب الصوم، بہشتی زیور وغیرہ)؛ لہذا صورت مسئولہ میں جب اس عورت نے تیس دن تک دو مسکینوں کو کھانا کھلایا ہے تو اس سے تیس روزوں کا فدیہ ادا ہوگیا، فقہائے کرام کی عبارت سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ دو مسکینوں کو ایک وقت کھلانا ایک مسکین کو دو وقت کھلانے کے مثل ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Fatwa:649-508/sn=7/1441
اگر یہ عورت پیرانہ سالی یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہے تو اس کے لیے ”فدیہ“ادا کر نے کی گنجائش ہے، ایک روزے کا فدیہ صدقة الفطر کے بہ قدر غلہ یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا ہے، اگرکوئی شخص ایک مسکین کو دو وقت کھانا کھلادے تب بھی فدیہ ادا ہوجاتا ہے اور حسب تصرح فقہاکفارہ یمین سے اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس میں مساکین کی تعداد اور ہر مسکین کے لیے فدیہ کی خاص مقدار شرط نہیں ہے۔ (عمدة الفقہ، 3/343، کتاب الصوم، بہشتی زیور وغیرہ)؛ لہذا صورت مسئولہ میں جب اس عورت نے تیس دن تک دو مسکینوں کو کھانا کھلایا ہے تو اس سے تیس روزوں کا فدیہ ادا ہوگیا، فقہائے کرام کی عبارت سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ دو مسکینوں کو ایک وقت کھلانا ایک مسکین کو دو وقت کھلانے کے مثل ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند