اگر کسی بات پر وہم ہو اور اس پر غور وفکر کر کے غالب گمان پر عمل كرلیا اگر پھر وہم آئے تو كیا كرنا چاہیے؟

سوال کا متن:

ایک مسلہ پوچھنا ہے کے مجھے بہت طلاق کے وساوس اتے تھے تو ایک مرتبہ کسی بات میں مجھے بولتے بولتے شک ہوگیا کے طلاق تو نہی ہوئی تو میں نے برابر غوروخوض کیا پھر غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کے کچھ نہی ہوا اب مجھے وہ وساوس پریشان کرتے رہتے ہیں اور وہ صورتحال بھول گیا ہوں تو اب کیا کرنا چاہئے حالانکہ اسوقت غالب گمان پر عمل کرتے ہوئے چھوڑ دیا اب وہ وساوس پریشان کرتے ہیں کیا کرنیکا صورت حال بھی بھول گیا ہوں اور یہ وساوس آئے اندازاً تین سال ہوئے ہونگے مفتی صاحب بات اصل میں یہ جاننی ہے اگر کسی کو کسی بات پر وہم ہوگیا طلاق کا اور اُسنے غور وفکر کرکے غالب گمان پر عمل کیا اب دو تین سال بعد اسی بات پر پھر وہم ہوا اور شک ہوا کے نکاح میں فرق تو نہیں پڑھا اب جس بات پر وہم ہواہے اسکی صورتِ حال بھول گیا ہوں دو بارہ غور و فکر کرنے جاتا ہوں تو صورتِ حال سمجھ میں نہیں آتی تو اُسکا کیا حل ہیں؟تو میرے کہنیکا مقصد یہ ہے کے پہلی بار جو غور وفکر کرکے غالب گمان پر کیا گیا وہ ہی معتبر مانا جائے گا۔

جواب کا متن:

Fatwa:13-10/sd=01/142

 آپ شک و شبہ کی طرف قطعا توجہ نہ دیں، ایک بار جب غور و فکر کرکے غالب گمان پر عمل کرلیا گیا، تو اب اسی پر برقرار رہیں، مزید نہ سوچیں اور نہ کسی سے پوچھیں،مفید کاموں میں مشغول رہنے کی کوشش کریں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :179783
تاریخ اجراء :09-Sep-2020