بیوی كے علاج كا خرچ نفقہ میں داخل ہے یا نہیں؟

سوال کا متن:

بیوی كے علاج كا خرچ نفقہ میں داخل ہے یا نہیں؟

جواب کا متن:

Fatwa : 51-16T/H=02/1442

 بکر نے جتنے دلائل ذکر کئے ہیں اُن سے اُس کا مدعا ثابت نہیں ہوتا حضراتِ فقہاء کرام نے جو تصریحات کی ہیں اُن سے زید کا قول درست و صحیح ہونا ثابت ہے، آجکل علاج معالجہ بہت مہنگا ہوگیا ہے اگر بیوی اِس کی متحمل نہ ہو تو وہ علاج کہاں کرائے گی؟ یہ تو کوئی معقول وجہ نہیں اگر شوہر بھی غریب و بیمار ہو تو ایسی صورت میں دونوں کے علاج معالجہ کی کیا شکل ہوگی؟ اگر عورت کے پاس اپنا زیور وغیرہ ہے تو اس سے علاج کے اخراجات پورے کرلینا کچھ بھی مشکل نہیں نیز حسن معاشرت کا تقاضہ کچھ اور ہے اور عامةً مسلمانوں میں الحمد للہ رواداری پر عمل ہے اس لئے زوجین ایک دوسرے کے نہ صرف واجبی کاموں میں حصہ لیتے ہیں بلکہ انتہائی خوش دلی سے غیر واجبی کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا کر گھر کی خوشحالی میں چار چاند لگاتے ہیں چنانچہ ملکة البیت (گھر کی رانی) ہونے کے ناطے عمدہ عمدہ کھانے وقت پر تیار کرنا بچوں کی دیکھ ریکھ اچھے انداز سے کرنا گھر اور گھریلو اشیاء کو صاف ستھرا رکھنا اسی طرح بیمار ہو جانے پر بیوی کا اچھے سے اچھا علاج کرانا بیوی کے میکہ والوں کا اعزازو اکرام کرنا ساس سسر کو مثل اپنے حقیقی ماں باپ کے سمجھ کر ادب و احترام کرنا وغیرہ وغیرہ جیسے غیر واجبی اور واجبی امور خوشی خوشی انجام دینا مسلمانوں میں عام ہے اگر زوجین اور ان کے اولیاء اور دونوں کے افرادِ خاندان بس واجبی واجبی امور کو انجام دیں غیر واجبی امور سے سب کے سب ہاتھ کھینچ بیٹھیں تو دونوں میاں بیوی اور افراد خاندان کا سکون و اطمینان غارت ہوکر نہ معلوم کتنے گھرانے تباہی و بربادی کے گھاٹ اتر جائیں گے ۔ حاصل یہ کہ بیوی کے علاج معالجہ کا شوہر پر واجب ہونے کا قول غلط اور تصریحاتِ فقہاء کرام کے خلاف ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :600010
تاریخ اجراء :28-Sep-2020