لاک ڈاوٴن کے دوران مساجد میں اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام لاک ڈاوٴن میں اعتکاف سے متعلق درج ذیل مسائل میں:
(۱): لاک ڈاوٴن کے دوران مساجد میں اعتکاف کا کیا حکم ہے؟
(۲): اگر حکومت کی طرف سے کوئی مسجد بالکل بند ہو اور اس میں کوئی نماز نہ ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں اعتکاف کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
(۳): گھر میں نماز کے لیے جو کمرہ خاص کیا گیاہے، اگر مرد حضرات اُس کمرے میں اعتکاف کریں تو یہ کیسا ہے؟ اور اعتکاف ہوگا یا نہیں؟
(۴): محلہ کی جو مسجد بند ہو اور اس میں اعتکاف کی کوئی صورت نہ بن سکے ، اگر اس مسجد کے نمازیوں میں سے کوئی ایک یا چند اپنے اپنے گھروں کے اُس کمرے میں اعتکاف کریں، جو نماز کے لیے خاص کیا گیا ہو تو سنت موٴکدہ علی الکفایہ کی ادائیگی ہوگی یا نہیں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم


Fatwa:790-118T/N=9/1441


(۱):رمضان المبارک کے اخیر عشرے کا اعتکاف سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی: محلہ کی مسجد میں کسی ایک شخص کا بہ نیت اعتکاف بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے کچھ پہلے مسجد پہنچ جانا اور عید الفطر کا چاندنظر آنے (یا ثابت ہونے) تک مسجد ہی میں رہنا اور بلا ضرورت طبعی یا شرعی مسجد سے باہر نہ آنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ اگراہل محلہ میں سے کسی نے بھی مسجد میں اعتکاف نہیں کیا تو سب اہل محلہ کو ترک سنت کا گناہ ہوگا؛


لہٰذا لاک ڈاوٴن کی موجودہ صورت حال میں جس طرح چند متعین نمازیوں کے ساتھ پنجوقتہ نماز باجماعت کے ذریعے الحمد للّٰہ مساجد آباد ہیں، اسی طرح مساجد میں اخیر عشرے کا اعتکاف بھی کیا جائے۔ اور بہتر ہے کہ پنجوقتہ نماز باجماعت کے لیے جو نمازی متعین کیے گئے ہیں، اُنہی میں سے ایک، دو حضرات اعتکاف کریں۔ اور اگر کسی مجبوری سے اُن میں سے کوئی تیار نہ ہو تو اہل محلہ میں کسی اور کو اعتکاف کے لیے تجویز کردیا جائے؛ البتہ اس صورت میں اگر نمازیوں کی تعداد پانچ سے زیادہ ہورہی ہو تو کسی ایک کو گھر میں نماز پڑھنے کی تاکید کی جائے۔ اور اگر اختلاف ہو تو قرعہ اندازی کرلی جائے۔


(و-ھو أي: الاعتکاف-سنة موٴکدة في العشر الأخیر من رمضان) أي: سنة کفایة کما في البرھان وغیرہ لاقترانھا بعدم الإنکار علی من لم یفعلہ من الصحابة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳: ۴۳۰، ۴۳۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۶: ۴۱۳، ۴۱۴، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


قولہ: ”سنة کفایة“: نظیرھا إقامة التراویح بالجماعة، فإذا قام بھا البعض سقط الطلب عن الباقین، فلم یأثموا بالمواظبة علی الترک بلا عذر، ولو کان سنة عین لأثموا بترک السنة الموٴکدة إثما دون إثم ترک الواجب کما مر بیانہ في کتاب الطھارة (رد المحتار)۔


والمشھور عند مشایخنا أن یدخل المعتکف بعد العصر قبل غروب الشمس من الیوم العشرین من شھر رمضان لیدخل اللیلة الحادیة والعشرین فی الاعتکاف؛ لأن الاعتکاف لطلب لیلة القدر وقیامھا، وھي في العشرة الأخیرة، فلا بد من إیفاء اللیالي العشر من العشرة الأخیرة (رسائل الأرکان لبحر العلوم عبد العلي محمد، الرسالة الثالثة في الصوم، خاتمة في بیان الاعتکاف، ص: ۲۳۱، ط: المطبع الیوسفي، لکناوٴ)۔


قال الشافعي : إذا أراد أن یعتکف العشر الأواخردخل قبل الغروب، فإذا أہل ہلا ل شوال فقد أتم العشر، وہو قول أبی حنیفة وأصحابہ (الاستذکار،۱۰:۲۹۷، ط: دار قتیبة للطباعة والنشر، دمشق)۔


کل من یرید أن یتم لہ اعتکاف العشرلزمہ أن یدخل المسجد معتکفاً قبیل غروب الشمس من العشرین، وإلا لم یتم لہ العشر؛ فإن اللیالی الماضیةلاحقة بالأیام التالیة (معارف السنن،باب ما جاء في الاعتکاف، وقت بداء ة الاعتکاف، ۵:۵۱۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


(۲): جب پورے ملک میں ہر جگہ مساجد میں پانچ تک نمازیوں کی اجازت ہے تو مقامی انتظامیہ کو کوئی مسجد بند نہیں کرنی چاہئے ، ایسی صورت میں مقامی با اثر لوگوں کو چاہیے کہ انتظامیہ سے بات چیت کرکے حسب شرائط بند مساجد آباد کرنے کی کوشش کریں اور ان مساجد میں بھی حسب شرائط پنجوقتہ نماز باجماعت کے ساتھ اخیر عشرے کے اعتکاف کا نظم کریں۔ اور اگر کوئی بند مسجد کوشش کے باوجود پنجوقتہ نماز باجماعت کے لیے نہ کھل سکے تو جس طرح اُس بند مسجد میں نماز نہ پڑھنے پر اہل محلہ مجبوری کی وجہ سے قابل ملامت نہیں، اسی طرح اعتکاف نہ کرنے پر بھی اُنھیں کوئی گناہ نہ ہوگا ۔


(۳):مردوں کے حق میں اعتکاف ایسی عبادت ہے، جو مسجد شرعی کے ساتھ خاص ہے،یہ عبادت مسجد شرعی کے علاوہ کہیں اور انجام نہیں دی جاسکتی ۔


 قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: وأنتم عٰکفون في المساجد


 حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام وغیرہم نے ہمیشہ یہ عبادت مسجد ہی میں انجام دی، کہیں اور نہیں؛ جیسا کہ احادیث وآثار کا ذخیرہ شاہد ہے۔


 حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ سب سے زیادہ مبغوض وناپسندیدہ چیزیں اللہ تعالی کی نظر میں بدعات ہیں اور گھروں کی مساجد (گھروں میں عبادت کے لیے خاص کیے گئے کمروں یا حصوں) میں (مردوں کا) اعتکاف بھی بدعات میں سے ہے ۔


اور فقہا کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ مردوں کا اعتکاف مسجد کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوسکتا؛ اسی لیے معتکف، بلا ضرورت طبعی یا شرعی، مسجد شرعی سے باہر متعلقات مسجد میں بھی نہیں جاسکتا؛


 لہٰذا لاک ڈاوٴن کی موجودہ صورت حال میں بھی مردوں کا اعتکاف، گھروں کے اُن کمروں یا حصوں میں نہیں ہوسکتا، جو نماز کے لیے خاص کیے گئے ہوں خواہ اعتکاف واجب ہو یا سنت موٴکدہ یا نفلی ؛ کیوں کہ عارضی طور پر نماز کے لیے خاص کیے گئے گھروں کے وہ کمرے یا حصے، مسجد شرعی نہیں ہیں۔


البتہ مردوں کو چاہیے کہ فارغ اوقات زیادہ سے زیادہ نماز کے کمروں میں رہیں اور نماز، تلاوت قرآن پاک ، ذکر واذکار اور دعاوٴں میں مشغول رہیں، رمضان المبارک کا کوئی بھی لمحہ ضائع نہ کریں۔


اور خواتین کا اعتکاف چوں کہ گھروں میں ہوتا ہے؛ اس لیے وہ اپنی نماز کے لیے کوئی کمرہ یا کمرے کا کوئی حصہ خاص کرکے اُس میں اعتکاف کرسکتی ہیں؛ بلکہ جو خواتین گھریلو کام کاج سے فارغ ہوں، اُنھیں اعتکاف کا اہتمام کرنا چاہیے۔


أخرج البیھقي عن ابن عباس رضي اللہ عنھما قال: ”إن أبغض الأمور إلی اللہ تعالی البدع وإن من البدع الاعتکاف في المساجد التي في الدور“ (فتح القدیر لابن الھمام، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۲: ۱۰۹، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔


وبلغنا عن حذیفة أنہ قال: ”لا اعتکاف إلا في مسجد جماعة“ (کتاب الأصل، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۲: ۱۸۳، ط: وزارة الأوقاف والشوٴون الإسلامیة، قطر)۔


وأما شروطہ فمنھا:…مسجد الجماعة، فیصح فی کل مسجد لہ أذا ن وإقامة ھوالصحیح کذا فی الخلاصة (الفتاوی الھندیة،کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ۱: ۲۱۱، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔


(ھو) …(لبث)…(ذکر) ولو ممیزاً (فی مسجد جماعة)، ھو ما لہ إمام وموٴذن أدیت فیہ الخمس أو لا،… (أو) لبث (امرأة في مسجد بیتھا)…… (بنیة)، فاللبث ھو الرکن، والکون فی المسجد والنیة من مسلم عاقل طاھر من جنابة وحیض ونفاس شرطان (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳: ۴۲۸-۴۳۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۶: ۴۰۸- ۴۲۱، ت: الفرفور، ط: دمشق)، ھذا کلہ لبیان الصحة (رد المحتار)۔


وھذہ العبادة -عبادة الاعتکاف- لا توٴدی إلا في المسجد (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الاعتکاف، فصل في شرائط صحتہ، ۳: ۶، ط: دار الحدیث، القاھرة)۔


وھو -الاعتکاف- اللبث في المسجد قربة للّٰہ تعالی، فالمسجد شرط في الاعتکاف، ولا یکون اعتکاف دون المسجد لما عن أمیر الموٴمنین علی : ”لا اعتکاف إلا في المسجد“، رواہ ابن أبي شیبة وعبد الرزاق کذا في فتح القدیر، وعن حذیفة قال: ”أما أنا فقد علمت أنہ لا اعتکاف إلا في مسجد جماعة“، رواہ الطبراني، قال قوم من الصوفیة: لا یشترط المسجد للاعتکاف؛ لأن الاعتکاف اعتزال لعبادة اللہ تعالی، ولا تخصیص لہ بالمسجد، ونحن نقول: الاعتزال أمر حسن، فمن اعتزل لعبادة اللہ تعالی ولو في الصحراء أو بالبیت یکون مثاباً، ونحن لا نمنع ذلک، لکن کلامنا في الاعتکاف الذي ھو عبادة في ذاتہ ما ھو؟ فنقول: ھذہ العبادة المعتبرة في الشرع المسماة بالاعتکاف لا یکون إلا في مسجد جماعة (رسائل الأرکان لبحر العلوم عبد العلي محمد، الرسالة الثالثة في الصوم، خاتمة في بیان الاعتکاف، ص: ۲۲۹، ط: المطبع الیوسفي، لکناوٴ)۔


قال أبو حنیفة : یصح اعتکاف المرأة في مسجد بیتھا، وھو الموضع المھیأ من بیتھا لصلاتھا، قال: ولا یجوز للرجل في مسجد بیتہ (المنھاج شرح الصحیح لمسلم للنواوي ، کتاب الاعتکاف، ۱:۳۷۱، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔


ولاتعتکف المرأة إلا في مسجد بیتھا ولا تعتکف في مسجد جماعة (کتاب الأصل، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۲: ۱۸۴)۔


(وللمرأة الاعتکاف في مسجد بیتھا وھو محل عینتہ) المرأة (للصلاة فیہ)،فإن لم تعین لھا محلاً لا یصح الاعتکاف فیہ، وھي ممنوعة عن حضور المساجد (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی علیہ، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ص:۷۰۰، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔


(۴): محلہ کی جو مسجد بند ہو اور کوشش کے باوجود اس میں پنجوقتہ نماز باجماعت اور اعتکاف کی کوئی صورت نہ بن سکے، اس کا حکم اوپر نمبر ۲میں ذکر کردیا گیا، یعنی: عذر ومجبوری کی وجہ سے اہل محلہ کو گناہ نہ ہوگا؛ لیکن اس صورت میں اہل محلہ میں کسی مرد کو گھر کی نماز گاہ میں اعتکاف کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ شرعی اعتکاف ہوگا جیسا کہ اوپر نمبر ۳میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :179149
تاریخ اجراء :May 14, 2020