مجھے اپنی بھانجی زینب (جو کہ جوہانسبرگ میں رہتی ہے) کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ سال 2005میں اس کو اس کی بہن ممتاز کی جانب سے (جوکہ کیپ ٹاؤن میں رہتی ہے) ایک ای میل موصول ہوا کہ ممتاز نے اسلام کو چھوڑ کرکے عیسائیت مذہب قبول کر

سوال کا متن:

مجھے اپنی بھانجی زینب (جو کہ جوہانسبرگ میں رہتی ہے) کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ سال 2005میں اس کو اس کی بہن ممتاز کی جانب سے (جوکہ کیپ ٹاؤن میں رہتی ہے) ایک ای میل موصول ہوا کہ ممتاز نے اسلام کو چھوڑ کرکے عیسائیت مذہب قبول کرلیا ہے۔ زینب نے ٹیلیفون سے جواب دیا اورممتاز سے پوچھا کہ جوکچھ اس نے ای میل میں ذکر کیا ہے وہ حقیقت ہے یا مذاق ہے؟ ممتاز نے زینب کو بتایا کہ وہ واقعی مرتد ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے زینب نے ممتاز کے ساتھ تمام بندھن منقطع کرلیے۔ تاہم ان کے والد عبدالرحمن جوکہ زینب کے ساتھ رہتے ہیں یکساں طور پر ممتاز کے ساتھ رشتہ منقطع کرنے سے انکار کردیا ہے اوراس کے ساتھ مسلسل تعلق قائم کیا ہے۔ اس مہینہ کے شروع میں (جون 2008) میں،مجھے عبدالرحمن کی طرف سے ایک فون موصول ہوا کہ وہ کیپ ٹاؤں میں آئے ہیں اور یہ درخواست کررہے ہیں کہ میں ان کوچند دن اپنے یہاں ٹھہراؤں۔ میں نے ان کو ٹھہرایا۔ چند راتوں کے بعد مجھے ان کی طرف سے ایک فون موصول ہوا کہ وہ میرے گھر پہنچنے سے معذور ہیں اور اگلے دن آئیں گے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ رات کہاں ٹھہریں گے؟ انھو ں نے بتایا کہ وہ ممتاز کے گھر پر ہے اوروہاں سوئے گا۔ اس طرح سے ان نے اس بات کو یقینی بنادیا کہ وہ اب بھی ممتاز کے ساتھ ربط میں ہے۔ تین دن کے اندر میں نے تین مختلف عالموں سے رابطہ قائم کیا۔ ان سبھوں نے کہا کہ ممتاز سے تعلق ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں عبدالرحمن سے بھی تعلق ختم کرلینا چاہیے۔ میں نے فقہ کی دو کتابوں میں بھی دیکھا یعنی امام نووی کی منہاج العابدین اور موٴطا امام مالک ۔ جس دن عبدالرحمن جوہانسبرگ لوٹ رہا تھا میں نے اس کے ہاتھ میں قرآن دیا اور اس سے قسم کھانے کو کہا کہ کیا ممتاز اب بھی مرتد ہے تواس نے قسم کھایا کہ ہاں ممتاز اب بھی مرتد ہے۔ میں ا س کے بعد گھر والوں سے یہ حالات بتانے کے لیے گیا۔ تاہم گھر کے ایک ممبر نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے عبدالرحمن اپنی مرتد لڑکی سے اس لیے تعلق قائم کئے ہوئے ہے تاکہ اس کو واپس اسلام میں لاسکے۔ میں فوراًگھروالوں کواطلاع دینے سے رک گیا اور مزید تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے خیال کے مطابق مرتد کو اسلام میں واپس ہونے کا تین دن کا وقت دیا جاتا ہے، اورخاندان اورجماعت کے لوگوں کواس کے اوپر اثر ڈالنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ اس قانون کی بنیاد ہے۔ یہاں تک اس پر برقرار رہنے کی صورت میں (مرتد کو موت کی سزا دی جائے گی)۔اور اگر یہ نہ ہوسکے تو اس کی علامتی شکل اس سے رشتہ کا منقطع کرلینا ہے۔ اس وقت کی مدت میں کوئی اضافہ اس قانون کی تضحیک ہوگی۔ اگر آپ اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کریں تو بہت مناسب ہوگا۔اگر آپ اس کا حوالہ قرآن سے دیں تو برائے کرم سورہ اور آیت نمبر بھی بتائیں ۔اور اگر حدیث کا حوالہ دیں تو اس کا درجہ (متواتر، حسن وغیرہ) بتادیں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1056=1023/ د
 
جس شخص کا مرتد ہونا اس کے اقرار یا شرعی شہادت سے ثابت ہوجائے اس کے لیے حکم یہ ہے کہ تین دن کی اسے مہلت دی جائے گی اور اس کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، اگر اسے کچھ شبہات لاحق ہوگئے ہوں تو ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے گی، اگر توبہ نہیں کرتا ہے تو اسے قتل کردینے کا حکم ہے: قال في من ارتد عرض الحاکم علیہ استحباباً وتکشف شبہتہ ویحبس ثلاثة أیام إن استھل (شامي، ج ۳ ص ۳۱۲) یہ حکم اسلامی حکومت کے حاکم وقت کے لیے ہے، قتل کرنے کا اختیار اسی کو ہے لیکن عام مسلمانوں کے لیے حکم یہ ہے کہ ایسے شخص سے تعلقات منقطع کرلیں، ان سے دوستی رکھنا یا تعلقات قائم کرنا حرام ہے قال في المرقاة إن ھجرة أھل الأہواء والبدع واجبة علی مر الأوقات ما لم یظھر منہ التوبة والرجوع إلی الحق (مرقاة المفاتیح باب ما ینھی من التھاجر والتقاطع) سورہٴ مائدہ آیت: 54-57 میں مرتد کا حکم اور اس سے دوستی کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ تفسیر معارف القرآن جلد سوم کا مطالعہ فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :7091
تاریخ اجراء :Aug 10, 2008