خاوند كے كہنے سے بیوی كا اپنے محارم سے پردہ كرنا كیسا ہے؟

سوال کا متن:

بخدمت جناب علماء کرام: عرض گذارش ہے کہ حامد نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے رضاعی بھائیوں سے پردہ کرو اور اس کی بیوی نے دل سے حامد یعنی شوہر کا کہا مان کر اس پر عمل کرلیا یعنی اپنے آپ کو اپنے رضاعی بھائیوں سے پردہ کا پاپند بنادیا جبکہ رضاعی بھائیوں کا حکم بھی حقیقی بھائیوں کی طرح ہے تو حامد کا کہنا ہے کہ اگر میری بیوی نے انکار یا پھر کسی مفتی صاحب نے یہ فتوی دیدیا کہ رضاعی بھائیوں سے پردہ نہیں کرنا چاہئے تو میرا جینا مشکل ہوجائے گا کیوں کہ مجھے 100٪ فیصد یہی لگ رہا ہے کہ میری بیوی کے جو رضاعی بھائی ہیں وہ اس کو اپنی حقیقی بہن کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے اس فتنہ کے دور میں بظاہر حامد کی بیوی کے رضاعی بھائی نہ فاسق ہیں اور نہ ہی فاجر بالفرض اگر میری بیوی نے انکار یا فتوی پر عمل بھی کرلیا تو شاید مجھے اپنی بیوی سے نفرت ہوسکتی ہے یعنی اس میں ان میاں بیوی کا تعلق بھی ختم ہوسکتا ہے وہ تو پابند بن چکی ہے تقریبا ایک سال سے اب تو حامد کی بیوی کا بھی یہی کہنا ہے کہ میرے شوہر نے جو کچھ کیا اچھا کیا میرے لئے اب حامد کی بیوی کو بھی یہی گمان ہو رہا ہے کہ واقع میں وہ مجھے اپنی حقیقی بہن کی طرح نہیں دیکھ تے لیکن جب اس کو حامد نے پردہ کا پاپند بنایا تب اس عورت کا معلوم نہیں کیا گمان تھا لیکن اس نے اپنے شوہر کا کہا فورا مان لیا اس وقت اس کی اپنی رائے کیا تھی وہ بظاہر معلوم نہیں ابھی اس کی رائے اپنے شوہر حامد کی طرح ہے الحمد للہ ان میاں بیوی کے جو تعلقات ہیں تمام ہی اچھے ہیں اب شاید حامد کی بیوی کو جو بھی لاعلم والا شخص کہے گا کہ پردہ نہ کر گناہ ہوگا آپ کو وہ ہرگز اس کا کہا نہیں مانے گی شاید اگر وہ مفتیان کرام کی فتوی پڑھ لے تو پہر وہ پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی۔
*نوٹ:یاد رہے حامد کی بیوی نے اپنے فیصلے پر پردہ نہیں کیا بلکہ شوہر کے فیصلے پر*البتہ اب اس کی بھی حامد کی طرح ہی رائے ہے یعنی اب اس کا بھی گمان حامد کی طرح ہی ہے :* آیا کہ مذکورہ صورت حال میں جو پردہ کروا گیا وہ جائز ہے یا نہیں؟
(1) اگر اس نے اپنے شوہر کا کہا مان کے پردہ کرلیا ہے تو اس میں کوئی گناہگار تو نہیں ہوگا نا؟
(2) اور ہاں اس میں حامد کے والدین کی بھی یہی رائے ہے کہ آپ نے جو کچہ کیا درست کیا اور حامد کی بیوی کے والدین کی بھی یہی رائے ہے کہ جو کچہ کیا درست کیا (3) حامد کی بیوی کے ایک رضاعی بھائی نہیں بلکہ کئی سارے ہیں سب بھائی ہی رضاعی نہیں بلکہ والد اور خالو اس طرح کے تمام رشتہ دار ہیں صرف رضاعی بھائی لکھ دیا بطور سمجھانے کے رہنمائی فرمائیں منتظر ہیں۔ والسلام معذرت سوال مختصر نہیں لکھ پایا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:7473-210T/SN=11/1439
(۱،۲،۳) اصولی اعتبار سے تو رضاعی بھائی اور والد وغیرہ محارم میں سے ہیں؛ اس لیے ان سے شرعاً پردہ نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی طرح کے فتنے کا اندیشہ ہو تو رضاعی بھائیوں سے پردہ کرنا چاہیے اور خلوت وتنہائی سے تو بہرحال احتیاط کرنی چاہیے، الغرض صور ت مسئولہ میں حامد کی بیوی کا از خود یا شوہر کے کہنے سے اپنے رضاعی بھائیوں سے احتیاطاً پردہ کرنا شرعاً درست ہے؛ حامد کی بیوی اس کی وجہ سے گنہ گار نہ ہوگی۔ والخلوة بالمحرمة مباحة إلا الأخت رضعاً والصّہرة الشابة ․․․ وینبغي والأخ من الرضاع أن لا یخلو بأختہ من الرضاع؛ لأن الغالب ہناک الوقوع في الجماع اھ وأفاد العلامة البیری أن ینبغي معناہ الوجوب الخ (در مختار مع الشامي: ۹/۵۳۰، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :163660
تاریخ اجراء :Aug 16, 2018