زندگی میں عورت کا مال جائداد میں حصہ

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام قرآن کریم و احادیثِ مبارکہ اور شریعت کی روشنی میں ایک شخص زید ہے جو بجلی کے محکمہ میں رہتے ہوئے وقت سے پہلے پینشن لے لیتا ہے ۔ جسکی شادی محترمہ م سے تقریباََ تیس برس پہلے ہوئی تھی نونک جھونک کے ساتھ زندگی گزر رہی تھی اولاد ہے نہیں ایک سگے بہن کے بچے کو جسکی والدہ فوت ہو گئی تھیں ساتھ رکھا تھا بچپن میں ہی بیوی نے اسے بھگانے کی ضد کی مگر زید نے اپنے چھوٹے بھائی کے پاس رکھکر اُسکی تعلیم و تربیت کی اور الحَمدُ للّہ اب اُسکی شادی بھی کی جانا ہے اسکو ایک مکان بھی زید نے بنا کر دیا ہے ۔ زید کی بیوی موقع بہ موقع لڑائی جھگڑا کرتی رہتی ہیں زید اپنی پینشن میں سے بیوی کو پورا خرچ اٹھاتے ہوئے گیارہ ہزار اور مکان کا کرایہ آتا ہے وہ سب ملاکر پندرہ ہزار روپے ماہانہ ادا کر رہا ہے ۔ زید نے دورانِ ملازمت فنڈ میں سے رقم نکالکر زمین خرید ی جو کے سرکاری ملازمت کی وجہ سے بیوی کے نام کی ہے ۔ ایک مکان ہے جسمیں زید رہتا ہے وہ اُسکے نام ہے ۔ اب بیوی بضد ہے کے مکان بیوی کے نام کیا جائے اور زید بیوی کی روز مرہ کی زیادتیوں اور نئے نئے رقم اور جائیداد کی ضد کی وجہ سے اب انہیں آگے خرچ جاری رکھتے ہوئے جائیداد میں سے اور کسی قسم کی نقدی میں سے اور نہ ہی پینشن میں سے کچھ دینا نہیں چاہتا بلکہ اُنکے نام جو زمین ہے وہ بھی نہیں دینا چاہتا انہیں اپنی زوجیت سے الگ بھی نہیں کرنا چاہتا ۔ وہ زید کو برابر برابر طلاق دے دینے کے لیے کہتی رہتی ہیں۔ مندرجہ بالا حالات میں زید کیا کرے ؟ اگر نکاح میں رکھتے ہوئے ہی بیوی کو موجودہ جائیداد میں سے دینا ہو تو اسکا شریعت کے حساب سے کیا حصہ دیا جائے ۔ اور زید اپنی جائیداد زندگی میں کیا شریعت کی رُو سے اپنی مرضی سے کسی کو بھی کچھ بھی دے سکتا ہے ۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 583-577/M=06/1440
بر تقدیر صحت سوال مذکور، صورت مسئولہ میں اگر زید (شوہر) بیوی کے اخراجات پورے کر رہا ہے اور حقوق ادا کررہا ہے تو بیوی کا یہ مطالبہ کہ مکان میرے نام کیا جائے، یہ غلط ہے بلاوجہ شرعی طلاق کا مطالبہ بھی صحیح نہیں ہے، زید کو چاہئے کہ بیوی کی زیادتیوں پر صبر و تحمل سے کام لے، حقوق واجبہ کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے، اور موجودہ جائیداد میں سے بیوی کو حصہ دینا چاہے تو ایک چوتھائی یا اپنی صوابدید کے مطابق حصہ دے سکتا ہے اور دیگر ورثہ کو بھی دے اور اپنی حیات میں زید اپنی مرضی سے کسی اور کو بھی کچھ حصہ دے سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :168481
تاریخ اجراء :Mar 6, 2019