سوال کا متن:
السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کی سرکاری نوکری لگ رہی ہے، اوراس کے لئے رشوت دینا ہی دینا ہے، بغیررشوت نوکری مل پانا ممکن نہیں ، تو کیا ایسی صورت میں رشوت دینا درست ہے؟ اور کیا سود کی رقم بطور رشوت کے دے سکتے ہیں؟ اور ایم بی بی ایس وغیرہ کے لئے اگر سی پی ایم ٹی کلیئر نہ کیا ہو تو دوسرے کوٹے کی سیٹ پر کالج والے ڈونیشن کے نام پر اچھی خاصی رقم لیتے ہیں، تو یہ ڈونیشن دے کر داخلہ لینا کیسا ہے؟ اور سود کی رقم بطور ڈونیشن دینا کیسا ہے؟
جواب کا متن:
Ref. No. 38 / 1091
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں سود اور رشوت کے معاملات سے سختی سے روکا گیا ہے، اس لئے بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے کہ ہم سود ی اور رشوت پر مشتمل معاملات سے بچنے کی پوری کوشش کریں اور جب تک مجبوری نہ ہو اس کو کسی طرح گوارہ نہ کریں۔ تاہم اگرتمام تر قابلیت وصلاحیت واستحقاق کے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے حق سے محروم کیا جاتا ہوتو اسی صورت میں بدرجہ مجبوری اپنا حق وصول کرنے کے لئے علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور سودی رقم کا استعمال بھی ایسی جگہوں پر درست ہوگا۔
ہماری معلومات کے مطابق ڈونیشن داخلہ فیس کی ہی ایک شکل ہے جس کے لینے کی گنجائش ہوسکتی ہے، تاہم حکومتی قانون کی پاسداری بھی لازم ہے ، اس لئے اگر یہ قانون کے خلاف ہو تو اس سے بچنا ضروری ہے۔ اور ایسی صورت میں سودی رقم سے ڈونیشن ادا کرنا درست نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند