میرا سوال یہ ہے کہ زید کے والد کو چار بیٹے ہیں، یعنی زید اور تین بھائی۔ زید کی والدہ کا بیماری کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔پھر زید کے والد نے دوسرا نکاح کیا۔ دوسرے نکاح سے ایک بیٹی ہے۔ تو اب زید کے تین سگے بھائی اور ایک سوتیلی

سوال کا متن:

Ref. No. 39 / 0000

میرا سوال  یہ ہے کہ زید کے والد کو چار بیٹے ہیں، یعنی زید اور تین بھائی۔ زید کی والدہ کا بیماری کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔پھر زید کے والد نے دوسرا نکاح کیا۔ دوسرے نکاح سے ایک بیٹی ہے۔ تو اب زید کے تین سگے بھائی اور ایک سوتیلی بہن ہے۔ زید والد کے ساتھ محنت کرتا ہے جبکہ دوسرے بھائی لوگ چھوٹے ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ زید کے والد کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی۔ جبکہ والد کی کمائی میں زید کا بھی حصہ ہے۔ تو کیا زید کو زیادہ وراثت ملے گی۔ اگر ایک لاکھ روپئے وراثت میں بچتے ہیں تو تقسیم کیسے ہوگی؟

جواب کا متن:

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا والد کا تعاون ہے؛ صرف اس وجہ سے وراثت میں زید کو زیادہ حصہ نہیں ملے گا، والد کے ساتھ کام کرتے ہوئے اگر کوئی ماہانہ تنخواہ وغیرہ طے ہوئی تھی تو اس کا حساب کرکے پہلے اس کو دیدیا جائے گا پھر وراثت ےتقسیم ہوگی اور تمام لڑکوں کو برابربرابر حصہ ملے گا۔ تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد کل جائداد کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے 9 حصے مرحوم کی بیوی کو، 7 حصے بیٹی کو، اور چودہ چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند
فتوی نمبر :1016
تاریخ اجراء :Nov 13, 2017,