سوال کا متن:
Ref. No. 37/1201
ہم دو بھائی تین بہنیں ہیں۔ والد صاحب کی دس ایکڑ زمین اور دو مکان تھے۔ والد صاحب 1975 میں شدید بیمار ہوئے تھے، ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ انھوں نے خود بڑے بیٹے کو چارایکڑزمین اور ایک مکان دیا تھا، دوسرے بیٹے کو بھی چار ایکرزمین اور ایک مکان دیا تھا۔ تین بیٹیوں کو دو ایکڑ زمین دئے تھے۔ ان کا انتقال 1977 میں ہوگیا تھا ۔ اب بڑے بیٹے کا بھی 2011 میں انتقال ہوگیا، زمین اور مکان سب بیچ چکے تھے۔ دوسرے بیٹے کے پاس چارایکڑزمین اور ایک مکان موجود ہے۔ تین بیٹیوں کے پاس دو ایکڑ زمین ہے۔
اب 40 سال بعد تیں میں سے ایک بیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کو شریعت کے مطابق حصہ چاہئے۔اور وہ چاہ رہی ہے کہ دوسرے بیٹے کے پاس جو چار ایکر زمین اور مکان ہے اس میں سے حصہ چاہئے۔ اس کا حل بتائیں۔
ہم دو بھائی تین بہنیں ہیں۔ والد صاحب کی دس ایکڑ زمین اور دو مکان تھے۔ والد صاحب 1975 میں شدید بیمار ہوئے تھے، ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ انھوں نے خود بڑے بیٹے کو چارایکڑزمین اور ایک مکان دیا تھا، دوسرے بیٹے کو بھی چار ایکرزمین اور ایک مکان دیا تھا۔ تین بیٹیوں کو دو ایکڑ زمین دئے تھے۔ ان کا انتقال 1977 میں ہوگیا تھا ۔ اب بڑے بیٹے کا بھی 2011 میں انتقال ہوگیا، زمین اور مکان سب بیچ چکے تھے۔ دوسرے بیٹے کے پاس چارایکڑزمین اور ایک مکان موجود ہے۔ تین بیٹیوں کے پاس دو ایکڑ زمین ہے۔
اب 40 سال بعد تیں میں سے ایک بیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کو شریعت کے مطابق حصہ چاہئے۔اور وہ چاہ رہی ہے کہ دوسرے بیٹے کے پاس جو چار ایکر زمین اور مکان ہے اس میں سے حصہ چاہئے۔ اس کا حل بتائیں۔
جواب کا متن:
Ref. No. 37/1191
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں باپ نے اپنی زندگی میں جو جائداد جس کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کی ہوگئی ، اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ بہن کا مذکورہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ تاہم اگر بہن ضرورتمند ہو تو بھائی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنا بڑی نیکی کی بات ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند