سوال کا متن:
Ref. No. 1016
کیا فرماتے ہیں علمائےکرام کہ جس جگہ علم دین کی اشاعت کے لےر جگہ اور سایہ کا نظم نہ ہو، ایسی جگہ پر زید اپنے کچھ احباب کو جمع کرکے اپنے اپنے پاس سے زکوة وصدقات کی رقم سے کچھ زمینیں خریدکر اس کو مدرسہ کے نام وقف کرکے اس میں کچھ سایہ کا انتظام کرنا چاہتا ہے، تاکہ بچوں کو علم دین کے حاصل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیا ایسا کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے؟ انیس احمد
کیا فرماتے ہیں علمائےکرام کہ جس جگہ علم دین کی اشاعت کے لےر جگہ اور سایہ کا نظم نہ ہو، ایسی جگہ پر زید اپنے کچھ احباب کو جمع کرکے اپنے اپنے پاس سے زکوة وصدقات کی رقم سے کچھ زمینیں خریدکر اس کو مدرسہ کے نام وقف کرکے اس میں کچھ سایہ کا انتظام کرنا چاہتا ہے، تاکہ بچوں کو علم دین کے حاصل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیا ایسا کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے؟ انیس احمد
جواب کا متن:
Ref. No. 1088 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ زکوة اور صدقات واجبہ میں تملیک ضروری ہے، زکوة کی رقم فقراء کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، بلا تملیک ان رقومات کا استعمال مدرسہ یا کسی بھی دوسرے رفاہی کاموں میں درست نہیں ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں بلا تملیک زکوة کی رقم سے مدرسہ کے لئے زمین خریدنا اور سایہ وغیرہ کا انتظام کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اہل خیر حضرات نفلی صدقات اور امداد سے اس میں تعاون کریں ، یا پھر زکوة کی رقم کسی غریب کو دیدی جائے اور اس کو بااختیار بنادیا جائے پھر اس کو مدرسہ کے لئے خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے اگر وہ اپنی مرضی سے دیدے تو اس کو مدرسہ کی زمین یا تعمیر میں لگانا درست ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند