پندرہ سال قبل والد کا انتقال ہوگیا۔ جائداد تقسیم ہوگیل، سب لوگ خوشی سے رہنے لگے۔ ہماری والدہ کی ملکیت میں ایک دوکان تھی، اپنی حیات ہی میں انھوں نے وہ دوکان میری ملکیت میں دیدی تھی اور بھائیوں اور بہنوں. رشتہ داروں کے سامن

سوال کا متن:

Ref. No. 982

پندرہ سال قبل والد کا انتقال ہوگیا۔ جائداد تقسیم ہوگیل، سب لوگ خوشی سے رہنے لگے۔ ہماری والدہ کی ملکیت میں ایک دوکان تھی، اپنی حیات ہی میں انھوں نے وہ دوکان میری ملکیت میں دیدی تھی اور بھائیوں اور بہنوں.  رشتہ داروں کے سامنے انھوں نے بارہا کہا کہ میں نے دوکان نہال الدین کو دیدی ہے۔ وہ دوکان میرے قبضہ میں اسی وقت سے ہے ، میں نے اس کو کرایہ پر دیدیا اور کرایہ میں ہی وصول کرتا ہوں۔ والدہ نے زندگی میں کبھی نہ تو کرایہ کے بارے میں پوچھا نہ ہی مطالبہ کیا۔ والدہ کے انتقال کے پانچ سال بعد تک بھی یہی حال رہا کسی نے کچھ مطالبہ نہیں کیا۔ مگر اب بھائی اس دوکان میں اپنا حق مانگتے ہیں۔ کیا ان کا حق ہے اگر ہے تو کتنا؟ والسلام  نھال الدین

جواب کا متن:

Ref. No. 1060 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں آپ کے بھائیوں کا اس دوکان میں جس کو آپ کی والدہ نے آپ کی ملکیت میں دیدیا تھا کوئی حصہ نہیں ہے۔تاہم  اگر وہ ضرورت مند ہیں تو بطور صلہ رحمی ان  کو اپنی گنجائش کے بقدر کچھ دیدیں تو کارثواب ہوگا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند
فتوی نمبر :240
تاریخ اجراء :Mar 1, 2015,