کیا یہ بات درست ہے فقہ حنفی میں سسر کا بہو کو شہوت سے چھونے سے یا ساس کو داماد کا شہوت سے چھونے سے حکم مصاحرت کا جو قانون لاگو ہوتا ہے اس پر تینوں آئمہ نے اختلاف کیا شہوت سے چھونے کی کوئی صحیح حتکہ حسن لغیرہ سند کی بھی کوئ

سوال کا متن:

کیا یہ بات درست ہے فقہ حنفی میں سسر کا بہو کو شہوت سے چھونے سے یا ساس کو داماد کا شہوت سے چھونے سے حکم مصاحرت کا جو قانون لاگو ہوتا ہے اس پر تینوں آئمہ نے اختلاف کیا شہوت سے چھونے کی کوئی صحیح حتکہ حسن لغیرہ سند کی بھی کوئی حدیث نہ ہے جو احادیث ہے وہ ضعیف جو کہ تفسیر مظہری میں سورہ نساء کی آیت نمبر 22 کی تفسیر میں بیان کی گئی ہے کہ کسی عورت کو اگر کسی نے ہاتھ سے بھی دبایا ہو تو اس مرد کو اس عورت کی بیٹی سے نکاح نہیں کرنا چاہئے یہ حدیث کو قاضی ثناءاللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری میں ضعیف بیان کیا ہے.
ہاتھ سے چھونے پر ابراھیم نخعی کا اثر ہے جس میں حکم مصاحرت ثابت ہوتی ہے تاہم کوئی حدیث نہ ہے تو کیا مذہب غیر پر عمل کرنا درست نہ ہوگا؟

جواب کا متن:

Ref. No. 1543/43-1080

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں احناف کا مسلک احتیاط پر مبنی ہے جس کی تائید میں صحابہ کے آثار موجود ہیں، علامہ عینی نے ان آثار کو نقل کیا ہے اس لئے مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے ۔ دوسال قبل مباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا اس موضوع پر سیمینار ہواتھا اس کی تجویز یہی ہے کہ مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے، ہاں انفرادی طور پر کسی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے تو وہ مفتی سے رجوع کرے، اگر حالات و قرائن سے مفتی کو مناسب لگے تو خصوصی حالت میں مفتی اس کے لئے مذہب غیر پر عمل کی اجازت دے سکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند
فتوی نمبر :3721
تاریخ اجراء :Aug 17, 2021