سوال کا متن:
اسلام علیکم۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آمین۔
میرا ایک سوال ہے۔ میری دو شادیاں ہے ۔ پہلی بیوی سے مجھے ایک بیٹی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔ پہلی بیوی کے پاس میرے بابا دادا والوں کی طرف سے اپنا گھر ہے۔
اور جو دوسری بیوی ہے وہ میرے ساتھ وہاں نہیں رہنا چاہتی اور نہ میں چاہتا ہوں۔
میری بیوی ایک ٹیچر ہے اور میں بھی جوب کرتا ہوں پر ہماری سلری سے ہم اپنا گھر نہیں بنا سکتے اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔
یہاں پاکستان میں کچھ بینکس اسلامک لوں دیتی ہیں۔ جس کو ہاؤس لوں کہتے ہیں۔
اور کچھ لوگ ہیں جو گھر بنوا کے دیتے ہیں پھر اقساط میں پیسے لیتے ہیں۔
آپ بتائیں ہم کو اس حالات میں کیا کرنا چاہیے بینک سے قرض لینا چاہیے یہ اُن لوگوں سے اقساط پر گھر بنوا کے پھر انکو اقساط میں پیسے دینے چھائے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور مجھے ہدایت دے میں اس معاملے سے بچوں اور اپنا گھر بناؤں۔ شکریہ
میرا ایک سوال ہے۔ میری دو شادیاں ہے ۔ پہلی بیوی سے مجھے ایک بیٹی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔ پہلی بیوی کے پاس میرے بابا دادا والوں کی طرف سے اپنا گھر ہے۔
اور جو دوسری بیوی ہے وہ میرے ساتھ وہاں نہیں رہنا چاہتی اور نہ میں چاہتا ہوں۔
میری بیوی ایک ٹیچر ہے اور میں بھی جوب کرتا ہوں پر ہماری سلری سے ہم اپنا گھر نہیں بنا سکتے اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔
یہاں پاکستان میں کچھ بینکس اسلامک لوں دیتی ہیں۔ جس کو ہاؤس لوں کہتے ہیں۔
اور کچھ لوگ ہیں جو گھر بنوا کے دیتے ہیں پھر اقساط میں پیسے لیتے ہیں۔
آپ بتائیں ہم کو اس حالات میں کیا کرنا چاہیے بینک سے قرض لینا چاہیے یہ اُن لوگوں سے اقساط پر گھر بنوا کے پھر انکو اقساط میں پیسے دینے چھائے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور مجھے ہدایت دے میں اس معاملے سے بچوں اور اپنا گھر بناؤں۔ شکریہ
جواب کا متن:
Ref. No. 952/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ کے لئے بہتر یہی ہے کہ بناہوا گھر قسطوں پر لے لیں اور قسطوار پیسے اداکریں، اگرچہ اس صورت میں پیسے زیادہ دینے ہوں گے۔ لیکن یہ صورت جائز ہے۔ جبکہ لون لے کر گھر بنانا بلاشدید ضرورت کے جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند