میڈیکل لائسنس کرایہ پر دینے کاحکم

سوال کا متن:

 ایک   بندہ  کے پاس   میڈیکل  اسٹور چلانے کا لائسنس  موجود  ہے ،اب یہ لائسنس  کسی  دوسرے  بندے کو  کرایہ  پر دیتا ہے ، وہ  اس کے نام  پر میڈیکل  اسٹور کھولتا ہےاور  لائسنس  والے  بندے  کو  کرایہ ادا کرتا ہے ،اسطرح  لائسنس  کرایہ پر  دینے  کا کیا  حکم ہے؟اگر  ناجائز  ہے تو  اس  لائسنس  سے  فائدہ  اٹھانے کی متبادل  صورت کیا  ہوسکتی ہے ؟

جواب کا متن:

واضح رہے  کہ  حکومت نے عوامی مصلحت کے تحت دواخانہ  چلانے کے لئے  اجازت نامہ کی شرط لگائی  ہے ،تاکہ  کوئی ایسا شخص  دواخانہ  نہ  چلا سکے  جو ادویات  کی پہچان نہ رکھتا  ہو ، کیونکہ  ایسی  صورت میں غلط دوا تجویز کرکے  عوام کونقصان  پہچانے کا خطرہ ہے، اسی لئے یہ  اجازت نامہ﴿ میڈکل لائسنس﴾ مخصوص  صلاحیت کے حامل افراد کو  جاری کیاجاتا  ہے لہذا  حکومت  کی ایسی  جائز پابندی کا لحاط  کرنا  شرعا  بھی لازم  ہے ،اس کی خلاف ورزی کرنے میں  دھوکہ دہی اور  جھوٹ پایا جاتا ہے ،لہذا بغیر  اجازت نامے کے میڈیکل اسٹور چلانا ،یا  کسی اور کے اجازت نامے پر  چلانا  دونوں صورتوں میں  گناہ ہے اس لئے اس  سے اجتناب لازم ہے ۔

میڈیکل  اسٹور  چلانے کےلئے  مخصوص صلاحیت کے  حامل افراد کو  حکومت کی طرف سے جو اجازت نامہ ﴿ لائسنس ﴾جو  جاری  ہوتا  ہے یہ مال نہیں  ہے ،لہذا  اس کو  کرایہ پر  دینا اور لینا جائز نہیں ، اور  کرایہ  کے نام  پر حاصل کردہ  رقم کا  استعمال بھی جائز نہیں ، بلکہ مالک  کو واپس کرنا  ضروری ہے ، اس کو  رقم واپس  کرکے اپنا لائسنس  واپس لے لیں۔


حوالہ جات

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59) } [النساء: 59]

تفسير ابن كثير ت سلامة (2/ 345)

عن ابن عباس: {وأولي الأمر منكم} يعني: أهل الفقه والدين. وكذا قال مجاهد، وعطاء، والحسن البصري، وأبو العالية: {وأولي الأمر منكم} يعني: العلماء. والظاهر -والله أعلم-أن الآية في جميع (4) أولي الأمر من الأمراء والعلماء، كما تقدم.

تفسير البغوي - طيبة (2/ 239)

قَوْلُهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} اخْتَلَفُوا فِي {أُولِي الْأَمْرِ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَجَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ: هُمُ الْفُقَهَاءُ وَالْعُلَمَاءُ الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ مَعَالِمَ دِينِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ الْحَسَنِ وَالضَّحَّاكِ وَمُجَاهِدٍ، وَدَلِيلُهُ قَوْلِهِ تَعَالَى: "وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ" (النِّسَاءِ -83) .

وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: هُمُ الْأُمَرَاءُ وَالْوُلَاةُ.       


مجيب
احسان اللہ شائق صاحب
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :76034
تاریخ اجراء :2012-09-07