"سلس البول "کی بیماری ہو تونماز کس طرح ادا  کی جائے؟

سوال کا متن:

السلام علیکم !محترم مہربانی فرما کر میری اس معاملے میں رہنمائی فرما دیں:

مجھے پچھلے کچھ سالوں سے سلس البول کی بیماری ہے، کافی علاج کروانے کے باوجود بھی کوئی  افاقہ نہیں ہو سکا، کافی جگہوں  سے علاج کروا کر  دیکھ لیا مگر بیماری ٹھیک نہیں ہوتی، میں نےاس وجہ سے کافی عرصےنماز پڑ ھنا چھوڑ دی تھی، جب بھی وضو کرتا  پیشاب کے قطرے نکلنے کی وجہ سے کپڑے نا پاک ہو جاتے ،دوبارہ صاف  کپڑے پہن کر بھی اگر طہارت کروں تو فورا کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں یا کبھی کبھی نماز کے دوران قطرے نکلنے کی وجہ سے کپڑےناپاک ہوجاتےہیں۔

 مختلف جگہوں سے علاج کروانے کے باوجود بھی افاقہ نہ ہوا تو میں  نےنماز پڑھنا چھوڑ دیا کہ  جب ٹھیک ہو جاؤنگا توشروع کردونگا،مگر جب ٹھیک نہ ہوا تو اب میں کافی عرصے سے ایسے ہی نماز پڑھ رہا ہوں۔

 ایک سوٹ کوتین چاردن بھی استعمال کرناپڑجاتاہےتواسی میں نمازپڑھتارہتاہوں۔اسکےعلاوہ میرا اسٹمک(معدہ) اور پیٹ اکثر خراب رہتا ہے، جسکی وجہ سے گیس خارج ہوتی رہتی ہے ،وضو برقرار نہیں رہتا، باربارٹوٹ جاتا ہے،کبھی کبھی ایک نماز کیلئے تین یا چار بار وضو کرنے کے بعد بھی نماز مکمل نہیں ہوتی اور بغیر وضو کے ہی مکمل کرنی پڑتی ہے۔

 کبھی کبھی ایک دن کےلیےٹھیک ہوجاتاہے،پھر کئی دن وہی معاملہ رہتا ہے۔ میں نے اس بارے میں ایک مفتی صاحب سے پہلےبھی فتویٰ لیا تھا مگر آپ سے گزرش ہےآپ اس بارے میں تفصیلی رہنمائی فرمائیں۔ میرےاس طریقہ سے نماز پڑھنے سے کیا نماز قبول ہو جاتی ہے؟ یا میں ایسے نمازپڑھنے سے مزید گنہگار ہو رہا ہوں ؟

 مجھے اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟ جبکہ علاج سے بھی افاقہ نہیں ہو رہا ،میں خود بھی  بہت پریشان  ہوں۔ میں آپ کی طرف سے رہنمائی کا انتظار کروں گا۔ جزاک اللہ۔

 

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں اگرسلس البول کی بیماری واقعتاہواورپیشاب کےقطروں کےاثرات بھی کپڑوں پر  ظاہرہوتے ہوں ،صرف وہم اورخیال  نہ ہواوربیماری اس قدر ہوکہ  کامل نماز کاوقت  اس طرح گزرجائے کہ قطرے بند نہ ہوں توایساشخص معذورکے حکم میں ہوگااورمعذورکاحکم یہ ہے کہ ہرنمازکے وقت کےلئےاس کووضو کرناضروری ہے، پھراس وضوسے فرض ،سنن  ونوافل ،تلاوت قرآن وغیرہ کرسکتاہے،اس دوران  قطرے آنے سے وضونہیں ٹوٹے گا،لیکن جب ایک نماز کاوقت نکل جائے گاتواس کاوضوٹوٹ جائے گااوردوسری نماز کے لئے نیاوضوکرناپڑے گا۔

ایسی حالت میں نمازچھوڑنی نہیں چاہیے،بلکہ ساتھ ساتھ اداء کرتےرہناچاہیے،معذورکی حالت عذرمیں پڑھی ہوئی نماز کی قضاء  بھی نہیں ہوتی ۔

اوراگربیماری اس قدرشدیدنہیں،اتناوقت مل جاتاہوجس میں پیشاب کےقطرےرک جائیں اوروضوء کرکےفرض نمازپڑھ سکےتواس وقت کاانتظاکرناضروری ہوگا۔مثلا اگرکسی دواء  کی وجہ سےبیماری میں کچھ دیرکےلیےافاقہ ہوجاتاہوتوکوشش کی جائےکہ اس افاقہ کےدوران وضوء کرکےنماز پڑھ لی جائے۔اوراگراس طرح افاقہ کی صورت نہ ہو توپھرمذکورہ بالا تفصیل کےتحت معذورکی طرح نماز اداء کی جائے۔


حوالہ جات

"رد المحتار" 2 / 432:

( وصاحب عذر من به سلس ) بول لا يمكنه إمساكه ( أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة ) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب ، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة ( إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة ) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث ( ولو حكما ) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم ( وهذا شرط ) العذر ( في حق الابتداء ، وفي ) حق ( البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت ) ولو مرة ( وفي ) حق الزوال يشترط ( استيعاب الانقطاع ) تمام الوقت ( حقيقة ) لأنه الانقطاع الكامل ۔

"الفتاوى الهندية " 2 / 80:المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق۔


مجيب
محمّد بن حضرت استاذ صاحب
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :75582
تاریخ اجراء :2022-01-22