مشترکہ خاندان کی صورت میں اخراجات اور کاروباری شراکت داری کاحکم (جدید)

سوال کا متن:

السلام علیکم جی!

 ایک مسئلہ پوچھنا تھا  کہ ہم ٹوٹل  تین بھائی ہیں، دو دبئی میں ہیں  اور ایک پاکستان میں ہے، والدین فوت ہو چکے ہیں،والدین کی طرف سے وارثت میں کچھ بھی نہیں ملاہے، جو کمایا ہے ہم دو بھائیوں نے کمایا ہے، ہم دو بھائی تقریباً 15 سال سے دبئی میں ہیں، ان 15 سالوں میں ہم نے ٹوٹل  10 لاکھ درہم گھر بھیجے ہیں،جس میں  گھر کا خرچہ وغیرہ ،3بہنوں اور 2 بھائیوں کی شادیاں کی ہیں اور بھی بہت پیسہ خرچ ہوا،اس کے علاوہ  پاکستان میں جو بھائی ہےاس پہ ہم نےبہت پیسہ خرچ کیا ہے، کئی کاروبار شروع کیے لیکن پورا نقصان ہو  گیا ہے، اس نے ہمارا بہت نقصان کیااور ابھی مانتے بھی نہیں کہ میں آپ سے پوچھ کر کاروبار شروع کیے لیکن میں کہتا ہوں کہ میں نے آپ پہ بھروسا کیا بھائی ہونے کی وجہ سے مجھے کیا معلوم کہ تم کس کے ساتھ کاروبار کرتےہو؟ اس کا ذمےدار آپ ہیں ،ابھی بھی لوگوں کے پاس 20 لاکھ قرضہ ہے 12 سال ہو گئے ہیں لیکن اس کے دوست نہیں دیتے ۔

 ٹوٹل پیسہ جو ہم  دو بھائیوں نے دبئی سے بھیجا ہےوہ دس لاکھ درہم عمارتی پیسہ ہے،اس میں  8 لاکھ درھم  میں نے بھیجے ہیں اور دوسرےبھائی نے 2 لاکھ درہم اور جو پاکستان میں ہے اس نے ان 10 لاکھ درہم میں سے147ہزار درہم  نقصان کیا ہے،یعنی میرا ٹوٹل انکم 15 سالوں میں 8 لاکھ درھم  ہے،دوسرے بھائی کا 2 لاکھ درہم ہے اور جو پاکستان میں ہےاس نے  147ہزار درہم کانقصان کیا ہے،ابھی جو باقی بچا ہے وہ  ایک گھر باقی بچا ہے پاکستان میں، قیمت تقریباً 70 لاکھ روپے پاکستانی  ہے اور ایک کپڑے کی دوکان ہے جس کی قیمت تقریباً 30 لاکھ روپے  ہے ،جو بھائی پاکستان میں ہے  وہ 3سالوں سے چلا رہے ہیں،لیکن ابھی تک گھر کو کچھ فائدہ نہیں دیا،میں سب سے بڑا بھائی  ہوں،بھائی کے کاروبار میں نقصانات  کی وجہ سے میں بہت  ٹینشن میں ہوں،جس سے مجھے شوگر ہوگئی ہےاوردمہ کی بیماری بھی ہے ،یعنی سانس لینے میں دشواری ہے،ابھی میں پردیس میں ہوں  اور بیماری کی وجہ سے مزدوری نہیں کرسکتاتو پھر بھائی  ابھی  کہتے ہیں کہ اگر آپ اور مزدوری نہیں کر سکتے توپھر علیحدہ ہونا ہے،یعنی الگ ہو نا ہے  اور جو بچاہے اس کو 3 حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی گھر اور دوکان کو، اور جو پیسہ آپ کا لگا ہے  گھر میں اور جو کاروبار میں نقصان ہوا ہے  بھائی کی وجہ سے وہ ہم نہیں مانتے،اس کے ہم ذمےدار نہیں ہیں، میں کہتا ہوں کہ جو باقی بچا ہے یہ تو  میرے بچوں کا حصہ ہے اس میں آپ بھائیوں کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ سب سے زیادہ پیسہ میرا لگاہے 8 لاکھ درھم اور جو گھر لیا یا دوکان بنایا ان ہی پیسوں سے لیا اور میں اور  مزدوری بھی نہیں کرسکتا  ،میری پوری ذندگی کی کمائی تو پورے مشترکہ گھر میں خرچ ہوئی، ابھی میں اپنے بچوں کو کیا دوں؟ لیکن دونوں بھائی نہیں مانتے  دوسرا بھائی کہتا ہے جو دبئی میں ہے   کہ میرا بھی  2 لاکھ درہم لگا  ہے مشترکہ گھر میں  میرا بھی پورا  حصہ ہے اور جو پاکستان میں ہے  اس نے  الٹا ہمارا نقصان کیا ہے 147ہزار درہم کا،  وہ بھائی بھی پورا حصہ مانگتے ہیں،ابھی میں   بیماری کی وجہ سے مزدوری بھی نہیں کرسکتا بہت تکلیف ہے سانس لینے میں ،لیکن وہ نہیں مانتے کہ اس میں ہمارا حصہ ہے اور جو نقصان ہوا وہ تو گیا اور جو بچا ہے اس کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں میں کہتا ہوں کہ نفع و نقصان دونوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں لیکن بھائی نہیں مانتے۔مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں کہ کس بھائی  کا کتنا حصہ ہے؟اس دوکان اور گھر میں اور جو میرا پیسہ نقصان ہوا  ہے 8 لاکھ درہم عمارتی پیسہ مشترکہ گھرمیں  اس کا کیا ہو گا بہت زیادہ پریشان ہوں  مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں   ۔شکریہ      

تنقیحات

سوالات

  1. آپ دونوں بھائی  دبئی سے جو پیسے کما کر بھیجتے رہے وہ سارے مشترکہ اخراجات کے لیے بھیجے تھے؟
  2. یہ پیسے والد صاحب  کو بھیجتے تھے  یا بھائی کو بھیجتے تھے؟
  3. ان پیسوں کو  استعمال کرنے کا اختیار آپ دونوں بھائیوں کی طرف سے والد صاحب کو تھا یا بھائی کو؟
  4. بھائی کو جو کاروبار کے لیے پیسے دیے گئے وہ ٹوٹل کتنے تھے ؟
  5. بھائی کو جو کاروبار کے لیے پیسے دیے گئے وہ  آپ دونوں بھائیوں میں سے کس کے کتنے تھے؟
  6. بھائی کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا تھا ؟کہ یہ پیسے کس حیثیت سے اس کو دیے جارہے ہیں؟ یعنی یہ قرض ہیں؟  یا یہ مضاربت کے طور پر ہیں کہ تم ان پیسوں سے تجارت کرو جو نفع ہوگا وہ ہم طے شدہ فیصدی حصے کے مطابق تقسیم کریں گے؟ یا کوئی اور حیثیت طے کی گئی تھی ؟ یا کوئی بھی حیثیت طے نہیں تھی؟
  7. بھائی نے جو کاروبار میں نقصان کیا ہے ، اس کی تفصیلات  بتائیں کہ وہ نقصان کیسے ہوا ؟ تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ یہ نقصان بھائی کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے یا بغیر غفلت کے اتفاقی طور پر ہوا ہے جیسا کہ کاروبار میں بسا اوقات نقصانات ہوجاتے ہیں۔اس کی تفصیل لکھ کر بھیجیے۔
  8. آپ بھائیوں میں سے جو دو بھائی کماتے تھے ان میں سے ہر ایک بھائی کی آمدن کتنی تھی؟کیا اس کی صحیح تعیین ممکن ہے؟اگر ہے تو برائے مہربانی وضاحت کیجیے۔

جوابات

سوال نمبر 1:

آپ دونوں بھائی  دبئی سے جو پیسے کما کر بھیجتے رہے وہ سارے مشترکہ اخراجات کے لیے بھیجے تھے؟

جواب نمبر1:

 جی مشترکہ اخراجات کے لیے بھیجتے تھے کیونکہ ہم تینوں بھائی ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور ساری فیملی اکٹھی ہے ۔جو بھی ضرورت پڑتی کھانے پینے کی، بیماری کی اور شادی بیاہ کی یعنی گھر میں جتنا پیسہ خرچ ہوتامیں ہی بھیجتا ،A to Z،  پورا پیسہ میں نے دوبئی سےبھیجا ہے حتی کہ تقریباًً 12 سالوں سے آج تک اپنے بھائیوں کی بیویوں کے زیورات کی زکوٰۃ اور عید کی قربانیوں کا پیسہ میں ہی دیتا ہوں اور جو دوسرے بھائی ہیں میرے ساتھ دوبئی میں وہ ہر مہینے تھوڑا تھوڑا مجھے دیتا پھر میں پورا پیسہ بھیجتا گھر کی ضرورت کیلئے۔ میری ٹوٹل انکم کا  80% اور دوسرے بھائی کا 20% پیسہ خرچ ہوا ہے، گھر کے مشترکہ اخراجات پر ان 15 سالوں میں،جب سے ہم دوبئی میں ہیں۔ہم دونوں بھائی دوبئی میں ہیں اور تیسرا پاکستان میں ہے ، اس کا کچھ بھی نہیں۔

سوال نمبر2:

یہ پیسے والد صاحب  کو بھیجتے تھے  یا بھائی کو بھیجتے تھے؟

جواب نمبر 2:

والد صاحب تو بہت پہلے فوت ہو چکے ہیں تقریباً 20 سال پہلے،یہ پیسےہم بھائی کو بھیجتے تھے۔

سوال نمبر 3:

ان پیسوں کو  استعمال کرنے کا اختیار آپ دونوں بھائیوں کی طرف سے والد صاحب کو تھا یا بھائی کو؟

جواب نمبر 3:

والد صاحب تو فوت ہو گئے تھے اس لیے یہ اختیار بھائی کو تھا پاکستان میں اور گھر میں جتنے خرچے ہوئے سب  بھائی کے ہاتھ پہ ہوئے وہ جتنا مانگتے تھے میں بھیجتا تھا بھائی ہونے کے ناطے بھروسہ کرتا تھا۔

 

سوال نمبر 4:

بھائی کو جو کاروبار کے لیے پیسے دیے گئے وہ ٹوٹل کتنے تھے ؟

جواب نمبر 4:

بھائی کو مختلف کاروبار کے لیے مختلف اوقات میں جو پیسےبھیجے وہ تقریباً 147ہزار درہم عمارتی پیسہ ہیں۔

سوال نمبر 5:

بھائی کو جو کاروبار کے لیے پیسے دیے گئے وہ  آپ دونوں بھائیوں میں سے کس کے کتنے تھے؟

جواب نمبر 5:

کیونکہ دوسرا بھائی ہر مہینے تھوڑا تھوڑا دیتے تو حساب تو نہیں کیا لیکن یہ پیسہ ایک ساتھ پورا نہیں بھیجا تقریباً 5سالوں میں بھیجااور سب کی نیت تھی کہ فائدہ جو بھی ہو گا مشترکہ ہوگا کیونکہ ہم سب ایک گھر میں رہتے ہیں۔

سوال نمبر6:

بھائی کے ساتھ معاہدہ،کیا ہوا تھا ؟کہ یہ پیسے کس حیثیت سے اس کو دیے جارہے ہیں؟ یعنی یہ قرض ہیں؟  یا یہ مضاربت کے طور پر ہیں کہ تم ان پیسوں سے تجارت کرو جو نفع ہوگا وہ ہم طے شدہ فیصدی حصے کے مطابق تقسیم کریں گے؟ یا کوئی اور حیثیت طے کی گئی تھی ؟ یا کوئی بھی حیثیت طے نہیں تھی؟

جواب نمبر 6:

کوئی بھی حیثیت طے نہیں کی تھی،بس یہ نیت تھی کہ جو بھی فائدہ ہوگا مشترکہ ہو گا  کسی ایک کا نہیں ہوگا ۔

سوال نمبر 7:

بھائی نے جو کاروبار میں نقصان کیا ہے ، اس کی تفصیلات  بتائیں کہ وہ نقصان کیسے ہوا ؟ تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ یہ نقصان بھائی کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے یا بغیر غفلت کے اتفاقی طور پر ہوا ہے جیسا کہ کاروبار میں بسا اوقات نقصانات ہوجاتے ہیں۔اس کی تفصیل لکھ کر بھیجیے۔

جواب نمبر 7:

سب سے پہلے بھائی کے کہنے پر ایک میڈیکل سٹور  لیا ،بھائی نے کہا کہ میں چلاؤں گا آپ پیسہ بھیجیے، اس میں فائدہ ہے تقریباً ایک سال کے بعد بولا کہ ہمارے گاؤں سے دور ہے، شہر میں ہے، آنا جانا مشکل ہے، میں بیچتا  ہوں، میں بولا کہ ٹھیک ہے جب بیچ دیا، حساب کیا تو جتنے پیسوں کی دوائی ڈالی تھی اس میں بھی کئی لاکھ کم تھے، ایک سال بعد بھائی بولا کہ ایک نیا کاروبار نکلا ہے جو بعد میں ڈبل شاہ کے نام سے مشہور ہوا،اس میں پیسہ دینا ہے بہت فائدہ ہے حالانکہ میں نے اس وقت بھی اس سے پوچھا تھا کہ پوری تحقیقات کرے کہ شرعی لحاظ سے جائز ہےکہ نہیں؟ بھائی نے کہا کہ میں نے تحقیقات کی ہیں، جو ایجنٹ  ہے وہ بھی مفتی ہے اور جو کاروبار کرتے ہیں وہ بھی عالم ہیں اور جو ایجنٹ ہے وہ میرا دوست ہے کوئی خطرہ بھی نہیں،میں نے بولا کہ ٹھیک ہے اگر آپ کو بھروسہ ہے ،پھر اس میں ہماراپیسہ ڈوب گیا،اس وقت بھائی نےبھی ڈبل شاہ کے ایجنٹ کے ساتھ منشئ کے طور کچھ وقت  کام کیا تھا حالانکہ میں نے اسے کہا تھا کہ کسی پیسہ کا بھی ذمہ داری  نہ لےلیکن بھائی نے ایجنٹ کے کہنے پر اپنے نام پر کچھ رسیدیں بنائی تھیں،جب ڈبل شاہ کا کاروبار ختم ہوا تو ایک وکیل تھا جس کے 10 لاکھ روپے  ڈوب گئے تھےتو اس نے ان رسیدوں کو ثبوت کے طور پر نیب میں کیس کر کے بھائی کے  اکاؤنٹ کو بھی بلاک کیا اور وہ آج بھی بلاک ہے جس میں میرا پیسہ  ہے جو میں نے بھائی کو بھیجے تھے کہ رکھ لو گھر میں ضرورت کے وقت استعمال کرنا،اُس وقت ہم کچھ حالت کی وجہ سے گاؤں چھوڑ کے شہر پشاور میں کرائےکے گھر میں رہتے تھے تو پشاور میں بھائی کے لئے ایک ریڈی میڈ گارمینٹس دوکان کھولی تو جب بھائی کا اکاؤنٹ بلاک ہوا تو گرفتاری کے ڈر سے ہم سارے گھر والے شہر چھوڑ کے واپس گاؤں آگئے اور وہ گارمینٹس دوکان میں بھی نقصان ہواتو پورا تقریباً 147ہزار درہم عمارتی پیسہ نقصان ہوا ہے۔ابھی میں بیمار ہوں ملک پاکستان جانا چاہتا ہوں مزیدمزدوری نہیں کرسکتا تو دونوں بھائیوں نے مشورہ کرلیا کہ اب الگ ہونا ھے جو باقی بچا ہے اس کو تقسیم کرتے ہیں کیونکہ آپ کی کمائی  ہمارا حق ہے،میں کہتا ہوں کہ میں نے پورا پیسہ آپ پر اور  مشترکہ گھر میں خرچ کیا ہے بچوں  کی طرح  ہر چیز کا خیال خیا ہے ،شادیاں کروائی ہیں اور جو گھر اور دوکان باقی ہے وہ بھی میرے پیسوں سےلیے ہیں اس میں بھی آپکا پیسہ نہیں ہے یہ تو میرے بچوں کا حصہ ہے۔میں نے تو اس نیت سے پیسہ خرچ کیا آپ دونوں بھائیوں پر کہ کل آپ کو بھی مجھ پر یا میرے بچوں پر خرچ کرنا ہے زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تاکہ میرے بچوں کا کوئی دیکھ بھال کرنے والا ہو۔اگر یہ میں اپنے لیے یا بچوں کیلئے کماتا تو ساری زندگی میرے لیے اور میرے بچوں کیلئے کافی ہوتا میں نے تو آپ سے اچھائی کی ہے ورنہ تو کوئی زبردستی تو نہیں تھا۔اگر آپ  جو باقی بچا ہے یعنی گھر اور دوکان اس میں حصہ چاہتے ہیں تو پھر جو نقصان ہے اس میں بھی آپ کا حصہ ہوگا،یعنی نفع و نقصان دونوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں،لیکن بھائی نہیں مانتے۔

جی میں ایک چیز لکھنا بھول گیا کہ بھائی نے ایک پلاٹ بھی لیا تھا اور بعد میں ، میں نے جب دیکھا جب میں دوبئی سے پاکستان گیا تو وہ ایسی جگہ تھا کہ اوپر سے سمندر کا پانی آتا تھا تو بعد میں وہ پلاٹ بھائی نے آدھی قیمت پر بیج دیا،اس کے علاوہ جب ہم پشاور میں کرائے کے مکان میں رہتے تھےتو بھائی کو میں نے کہا کہ کچھ کام کرے گھر کے خرچے بہت ہیں  گھر کا کرایا بھی ہے تو اس نے کچھ دن بعد کہا کہ میرا دوست ہے وہ فارن ایکسچینج کا کام کرتے ہیں اس کو پیسہ دیتے ہیں وہ 1 لاکھ پر تقریباً 4 ہزار تک مہینہ منافع دےگااور وہ نفع و نقصان کی بنیاد پر پیسہ لیتے ہیں جو کہ شریعت میں جائز ہے میں نے اسے کہا کہ پہلے بھی بہت پیسہ ڈوب گیا ہے ابھی کسی پر اعتبار نہیں کرنا لیکن وہ بولا کہ اپنے گاؤں کا ہے کہیں بھی نہیں جاسکتا اور سٹمپ پیپر لکھ کر دےگا تو میں نے کہا اگر آپ کو بھروسہ ہے تو پھر صرف 4 لاکھ دے دوجس سے صرف گھر کا کرایا مل سکے تو بھائی نے اسے دے  دیے،بعد میں بھائی نے اور بھی  پیسے دیے مجھ سے پوچھے بغیر، ٹوٹل  تقریباً 12 لاکھ دے دیےاور وہ پیسے بھی ڈوب گئے،اس کا بھی وہ مفتی ایجنٹ تھا جو پہلے ڈبل شاہ کا تھا اور وہ بھائی کا ابھی بھی دوست ہےاور اس کی باتوں میں آکر بھائی نے  ہمارے پیسے ڈوبا دیے ۔ یہ سب جتنے بھی کاروبار شروع کیے اس نیت سے کہ گھر کا  جتنا خرچہ ہو وہ اس کے لیے کافی ہوجائیں، ہمیں پردیس سے پیسہ نہ بھیجنا پڑ ے اور پاکستان میں کاروبار سے  ہو،ہماری جو دو بھائی کی کمائی ھے وہ بچ جائے۔اب دونوں بھائی الگ ہونا چاہتے ہیں اور جو باقی بچا ہے گھر اور دوکان، اس میں حصہ چاہتے ہیں وہ بھی میرے پیسوں سے لیے ہیں اور جو کاروبار میں نقصان ہوا ہے وہ بھی تقریباً میرا پیسہ ہے۔یعنی پورا 80% میرا پیسہ خرچ ہوا ہے اور دوسرے کا 20لیکن بھائی، صرف جو منافع ہے اس میں حصہ چاہتے ہیں اور جو نقصان ہوا ہے وہ میرے لیے چھوڑ تے ہیں۔اگر کسی کاروبار میں بھی منافع ہوا ہوتا تو پھر بھائی اس میں بھی حصہ مانگتے،لیکن وہ تو سب نقصان ہوا ہےاور جس بھائی نے کیا ہے وہ تو مانتے بھی نہیں کہ میں نے تو آپ دونوں بھائیوں سے پوچھ کر کاروبار شروع کیے،میں نے کہا کہ ہم نے آپ پر بھائی ہونے کے ناطے بھروسہ کیا جو بھی پیسہ آپ نے مانگا ہم نے بھیج دیا،پردیس میں ہمیں کیا معلوم کہ آپ کس کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اور کیا کر تے ہیں؟ وہ تو سب لوگ آپ کے دوست تھے اور ہیں۔یہ سب  کوتاہی اور نااہلی آپ کی ہے لیکن وہ نہیں مانتے۔ابھی تو بھائیوں نے میرے ساتھ تعلقات بھی ختم کیے 4 مہینوں سے حتی کہ بات بھی نہیں کرتے،بہت زیادہ پریشان ہوں پیسہ بھی لٹ گیا اور ہمارا بھائیوں کا رشتہ بھی ختم ہوا،اور میں نے جان ومال کی قربانی بھی دی۔

سوال نمبر 8:

            آپ بھائیوں میں سے جو دو بھائی کماتے تھے ان میں سے ہر ایک بھائی کی آمدن کتنی تھی؟کیا اس کی صحیح تعیین ممکن ہے؟اگر ہے تو برائے مہربانی وضاحت کیجیے۔

جواب نمبر 8:

            بڑے بھائی کی ٹوٹل آمدنی 985,000 درہم ہے اور دوسرے بھائی کی ٹوٹل آمدن 408,000 درہم ہے، جبکہ جو بھائی پاکستان مین رہتا ہے اس کی کوئی آمدن نہیں تھی۔

وضاحت:یہ جوابات سائل نے بذریعہ واٹساپ دیے ہیں،اردو کی کافی غلطیاں تھیں ،کسی حد تک ان کی تصحیح کی ہے مکمل نہیں کی تاکہ تعبیرات اسی طرح باقی رہیں جیسے سائل نے لکھ کر دی ہیں۔

جواب کا متن:

مشترکہ خاندانوں میں عموماً یہ صورتحال ہوتی ہے کہ والد اور بھائی وغیرہ اکٹھے رہتے ہیں ،اکٹھے کماتے ہیں اور اکٹھے ہی خرچ کرتے ہیں، ایسی صورتحال میں بسا اوقات گھر کے بعض افراد کسی نہ کسی کاروبار یا ملازمت وغیرہ میں مصروف ہوکر کچھ نہ کچھ کما رہے ہوتے ہیں اور کچھ گھر کی نگرانی اور گھر کے کام کاج کی ذمہ داری نبھاتے ہیں ،اسی طرح بعض اوقات ان کی آمدن کے ذرائع الگ الگ ہوتے ہیں اور کبھی ایک ہی کاروبار میں سب اکٹھے مل کر کمارہے ہوتے ہیں،اور بعض اوقات ہر ایک اپنی کمائی الگ رکھتا ہے اور کبھی سب ایک ہی جگہ کسی ایک بھائی کے پاس یا والد صاحب کے پاس اپنی آمدنی جمع کرتے رہتے ہیں۔

اس طرح کے مشترکہ خاندانی نظام میں شراکت داری کے شرعی اصولوں کی عام طور پر رعایت نہیں رکھی جاتی کہ پہلےباقاعدہ تمام افراد کی طرف سے کچھ نہ کچھ سرمایہ ملاکر ہر ایک کے لیے نفع و نقصان کا تناسب طے کرکے شراکت داری کے اصول کے مطابق معاملہ طے کریں ، بلکہ اس طرح کا کوئی معاملہ طے کیے بغیر گھر کے مشترکہ اخراجات میں متفرق طور پر حصہ لیتے رہتے ہیں یا اپنی آمدنی ایک جگہ جمع کرکے خلط کرلیتے ہیں اور اس اجتماعی رقم سے مشترکہ اخراجات کرلیتے ہیں،حالانکہ یہ دونوں کام شرعی لحاظ سے شراکت داری ہونے کے لیے کافی نہیں ہیں ، لہٰذا مشترکہ خاندان میں شراکت داری کی یہ جو صورت ہوتی ہے ، اسے شرکت فاسدہ کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس طرح کی صورتحال میں جب یہ بھائی آپس میں ایک دوسرے سے الگ ہورہے ہوں تو مشترکہ آمدنی اور اثاثہ جات وغیرہ کی تقسیم کا شرعی لحاظ سے یہ حکم ہوگا کہ  اگرشرکاء کی کمائی گئی رقم کی مقدار برابر نہ ہو،اس میں بہت واضح فرق ہو اور ہر ایک کی آمدنی معلوم بھی ہو تو ایسی صورت میں جس شریک کی کمائی سب سے کم ہو اس کی کمائی کا جو تناسب ہوگا اس حد تک تو سب شریک ہوں گے ، البتہ جس کی آمدنی  اس سے جس تناسب سے زیادہ ہو اُسے اس تناسب سے زیادہ حصہ دیا جائے گا،اس صورت میں جس شریک نے سب کی طرف سے  نمائندگی کرتے ہوئے گھر کی عمومی ذمہ داریاں سنبھالی ہوں وہ بھی اوسط حصے کی حد تک باقی افراد کی آمدنی اور اثاثہ جات وغیرہ میں شریک سمجھا جائے گا۔

مذکورہ تفصیل کے بعد صورت مسؤولہ میں چونکہ بھائیوں کی آمدنیاں برابر نہیں ، بلکہ کم وبیش ہیں اور معلوم بھی ہیں کہ کس نے کتنا کمایا ہے، لہٰذا جب ایسی صورتحال ہو تو سب بھائیوں کو برابر حصہ نہیں ملے گا بلکہ ہر ایک کو اس کی آمدن کے حساب  اور تناسب سے حصہ دیا جائے گا، نیز جس بھائی نے کمائی میں تو حصہ نہیں لیا لیکن گھر کی نگرانی ، کام کاج اور دیکھ بھال کی ذمہ داری انجام دی ہے اُسے بھی تقسیم میں سے اوسط حصہ دیاجائے گا۔اس بھائی کے اوسط حصے کی تعیین اس طرح ہوگی کہ  چونکہ مذکورہ صورت میں بھائیوں کی آمدنی کی کل مقدار 1393000 درہم بنتی ہے،لہٰذا اسے تین پر تقسیم کیا جائے تو فی کس آمدنی  464333.3333 درہم بنے گی جو اوسط کمائی کی مقدار ہے، یوں سمجھا جائے گا کہ یہ اوسط آمدنی اس بھائی کی طرف سے تھی جو گھر کے کام کاج سنبھالتا رہا ہے،لہٰذا اب تقسیم اس طرح سے کی جائے گی کہ کل نقدی اور اثاثہ جات وغیرہ کےآٹھ حصے بنائے جائیں گے، ان میں سے 4.24 حصے، 985000 درہم کمانے والے بھائی کو دیے جائیں گے،1.76 حصے، 408000 درہم  کمانے والے بھائی کو دیے جائیں گے جبکہ اس بھائی کو جس نے کوئی کمائی تو نہیں کی تھی لیکن گھر کی نگرانی اور کام کاج وغیرہ کی ذمہ داری سر انجام دی تھی اسے اوسط کمائی کے تناسب سے کل آٹھ حصوں میں سے دو حصے دیے جائیں گے۔

البتہ وہ رقم  جوآپ  دونوں بھائیوں کی اجازت  کے بغیر   پاکستان میں رہنے والے بھائی نےکسی  جگہ لگائی تھی اور آپ نے اس  حوالے سے منع بھی کیا تھا کہ فلاں  جگہ اس رقم سے زیادرقم نہ لگائی جائے ، جیسے کہ مذکورہ سوال میں  فارن ایکسچینج کے کاروبار میں آپ کی طرف سے 4 لاکھ روپے لگانے کی اجازت تھی اور بھائی نے 12 لاکھ روپے لگائے  اور مکمل نقصان ہوگیا تو  8 لاکھ کے ذمہ دار آپ کے پاکستان میں رہنے والے بھائی ہوں گے کیوں کہ انہوں نے یہ رقم آپ کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لگائی تھی،لہٰذا تقسیم کے وقت،پاکستان میں رہنے والے بھائی کے اوپر بیان کردہ حصے میں سےآٹھ لاکھ روپے آپ دونوں  بھائیوں کے درمیان اُسی نسبت سے تقسیم کیے جائیں گےجس نسبت سے آپ دونوں نے کاروبار کے لیے رقم فراہم کی تھی۔البتہ اگر آپ دونوں بھائی یہ رقم اس بھائی کے حالات دیکھتے ہوئے معاف کردیں تو یہ آپ کی طرف سے حسن سلوک اور صلہ رحمی ہوگی اور آپ اجر عظیم کے مستحق ہوں گے۔

ضروری وضاحت: مذکورہ جواب سائل کی طرف  سے   پوچھے گئے سوال،تفصیلات اور تنقیحات کے مطابق دیا گیا ہے اگر حقیقی معاملہ ، دی گئ تفصیلات کے مطابق نہ ہو تو یہ جواب کالعدم شمار ہوگا اور دوبارہ درست  تفصیلات کے مطابق  جواب معلوم کرنا ضروری ہوگا۔


حوالہ جات

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 94)

(سئل) في إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟

(الجواب) : ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا (أقول) هذا في غير الأب مع ابنه والزوج مع زوجته لما نقله المؤلف في غير هذا المحل عن دعوى البزازية


مجيب
محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان
مفتیان
مفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :75604
تاریخ اجراء :2022-02-10