ذاتی کمائی میں بھائیوں کی شرکت

سوال کا متن:

کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خاندان (والد سمیت اپنے بیٹوں کے)مل جل کر مشترک رہتے تھے،کھاناپیناوغیرہ سب کچھ کمائی سمیت مشترک تھا اور ایک بھائی کاروبار میں لگتااورایک بھائی پڑھتاتھا،۱۹۹۵تک یہی سلسلہ رہااور دریں اثنا کاروبار کرنےوالابھائی نےایک پلاٹ خرید کر اس پر مکان تعمير کرایا،پھر بھائیوں کے درمیان معاہدہ ہوا تھاکہ ہماری کمائی مشترک ہوگی اور اس معاہدہ پر باقاعدہ دستخط بھی ہوئے، ۱۹۹۸ میں والد وفات ہوگئے، سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ کاروبار کرنے والے بھائ ۲۰۰۵ میں وفات پاگئے اورجوبھائی پڑھتاتھا اسکو سرکاری ملازمت ملی تھی اس نے بھی بہت کچھ کمایا ،اب صورت حال یہ ہےکہ وہ علیحدہ ہونا چاہتا ہےاورمال وجائیداد باہمی تقسيم کرنا چاہتا ہے ،لیکن کہتا ہے کہ جوکچھ کاروبار کرکے کمایاگیا مع پلاٹ ومکان کے تقسيم ہونگے، لیکن جو میں ملازمت کرکے کماچکا ہوں وہ تقسيم سے مستثنی ہوگا، جبکہ دوسرے بھائی کہتے ہیں کہ نہیں کاروبار کی کمائی مع پلاٹ ومکان  تقسيم ہونگے، اسی طرح آپکی کمائی بھی تقسیم ہوگی ،توکیا ملازم بھائی سمیت چاروں بھائیوں کی کل کمائی تقسیم ہوگی  یاملازمت کرنےوالے بھائی کی کمائی تقسیم سے مستثنی ہوگی؟جبکہ معاہدہ پر ہر ایک نے دستخط کیے ہیں {راہنمائی فرمائیں}

جواب کا متن:

عام طور پر جس بھائی نے  اپنی نجی ملازمت سے جو مال اور جائیداد بنائی ہے،وہ اس  کی اپنی  شمار ہوتی ہے،مشترکہ طور پر تقسیم نہیں ہوگی،یہاں چونکہ  اس نے  دیگر بھائیوں کے ساتھ  وعدہ کرکے دستخط کیے ہیں،اس بناء پر اس کے ذمے وعدے کی پاسداری لازم ہوگی۔لہذا  یہ بھائی بھی اپنی جائیداد تقسیم کےلیے پیش کردے،اگر یہ وعدہ خلافی کرتاہے  توگنہگار ہوگا۔


حوالہ جات

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 17):

(سئل) في ابن كبير له عيال وكسب مات أبوه عنه وعن ورثة يدعون أن ما حصله من كسبه مخلف عن أبيهم ويريدون إدخاله في التركة فهل حيث كان له كسب مستقل يختص بما أنشأه من كسب وليس للورثة مقاسمته في ذلك ولا إدخاله في التركة؟

(الجواب) : نعم.

 (أقول) وفي الفتاوى الخيرية سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته أجاب هي للابن تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه .وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ


مجيب
سید نوید اللہ
مفتیان
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :75873
تاریخ اجراء :2022-02-02