ناجائز حیلے سے میراث پر قبضہ کرنا

سوال کا متن:

کیافرماتے ہیں علماء دین کہ ایک شخص کے وارثان میں 2 بیویاں ہیں، جن میں دوسری بیوی  کاایک ہی بیٹا اس کی وفات کے بعد پیدا ہوکر ایک مہینہ کی عمر میں فوت ہوگیا ،جبکہ پہلی بیوی سے اس کی ایک ہی بیٹی زندگی  تھی ایک بہن اور والد بھی موجو تھے۔ دوسری بیوی چونکہ گاؤں کے نمبردارکی  بیٹی تھی اس نے اپنے ایک مہینے کے بیٹے کو بذریعہ عدالت اپنےخاوند کی جائداد کا حصہ دلوا لیا اور پھر ایک ماہ کےفوت بیٹےکوشیعہ ظاہر کرکے سارا حصہ اپنے نام کروالیا ،جبکہ اسکا خاوند (مورث اعلٰی) اھلسنت والجماعث تھا ۔

اب سوال یہ ہے کہ شریعت اسلامی کی روشنی میں بتائیں کہ نابالغ بچے کی جائداد اپنے والد کے مذہب کے خلاف تقسیم کی جاسکتی ہے؟

جواب کا متن:

اگر فوت ہونے والے شخص کے ورثہ یہی ہیں جو سوال میں ذکر ہیں تو اس  صورت میں ا س نومولود بچے کا ،والد کے ترکے میں 47.22فیصد حصہ بنتا ہے۔وہ بچے کا حق ہوگا۔ اب بچے کے فوت ہونے کےبعد  وہ حصہ بچے کے ورثہ میں تقسیم ہوگا۔والدہ کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے،جو بچے کے دوسرے ورثہ معلوم ہونے پر بتایاجاسکتا ہے،مگر تمام ترکے پر کسی بھی بہانے سے قبضہ کرنا دوسروں کی حق تلفی  ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔بقیہ ورثہ کو ان کا حصہ دینا لازم ہے


مجيب
سید نوید اللہ
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :75403
تاریخ اجراء :2022-01-17