عاق کرنے کی شرعی حیثیت

سوال کا متن:

ہمارے بڑے بھائی کو والد صاحب نے عاق کیا تھا اور جنگ اخبار میں باقاعدہ اشتہار چھاپے تھے۔ اب والد صاحب کی وفات کے بعد وہ بھائی ہمارے رہائشی مکان میں اپنا حصہ مانگ رہا ہے۔ وہ والد صاحب کے عاق کو نہیں مانتا۔ برائے کرم عاق کرنے کی شرعی حیثیت سے آگاہ کریں؟

جواب کا متن:

عاوق کرنے کی دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ کسی کے قول وفعل سے خود کو بری کر دیا جائے، مطلب یہ کہ عاق کیا ہوا شخص اگر کہیں کوئی قول وفعل یا لین دین کرتا ہے تو عاق کرنے والا شخص اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ عاق کرنے کا دوسرا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص (وارث) کو مال وجائیداد سے محروم کر دیا جائے۔ پہلے معنی میں عاق کرنا درست اور جائز ہے۔ دوسرے معنی میں تفصیل یہ ہے کہ کوئی شخص جب تک زندہ رہتا ہے، اس کی ملکیت میں جتنا مال وجائیداد ہوتا ہے، وہ اس میں مکمل مختار ہوتا ہے، اولاد کا اس میں کوئی حق نہیں ہوتا، پھر جب وہ شخص فوت ہو جائے تو اپنے مال وجائیداد سے وہ مکمل طور پر بے اختیار ہو جاتا ہے، اس کی وراثت میں پھر اللہ تعالی کا قانون چلتا ہے۔ شریعت نے ہر وارث کا حصہ متعین کیا ہے، کوئی انسان اس میں کمی بیشی نہیں کر سکتا۔ لہذا کوئی بھی شخص اپنے ترکہ سے اولاد کو محروم نہیں کر سکتا۔ والدین کا یہ لکھ دینا یا اشتہار چھاپنا کہ ہمارے فلاں بیٹے کو ہم نے وراثت سے عاق کیا ہوا ہے، اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ بدستور تمام منقولہ وغیر منقولہ جائیدادا میں اپنے شرعی حصے کا مستحق ہوگا۔


حوالہ جات

{يوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء : 11]

مشكاة المصابيح (2/ 926):

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌قطع ‌ميراث ‌وارثه ‌قطع ‌الله ‌ميراثه ‌من الجنة يوم القيامة.رواه ابن ماجه.

تكملة حاشية ابن عابدين (8/ 116):

  • الارث ‌جبري ‌لا ‌يسقط ‌بالاسقاط.

مجيب
ناصر خان بن نذیر خان
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :75536
تاریخ اجراء :2022-02-21